بیرون ملک حماس کے قومی تعلقات کے شعبے کے سربراہ علی براکہ نے جمعرات کو کہا کہ تحریک نے غزہ میں جنگ بندی کی ضمانت دینے والے معاہدے تک پہنچنے کے حالیہ تجویز کا مثبت جواب دیا۔
انہوں نے بتایا کہ تحریک نے ثالثوں کو آگاہ کیا کہ وہ فلسطینی عوام کے مطالبات کو پورا کرنے والے کسی بھی اقدام کی حمایت کرتی ہے۔
براکا نے اپنے بیان میں مزید کہا: ”حماس دیگر مزاحمتی دھڑوں کے ساتھ مل کر فلسطینی عوام کے مطالبات جن میں مستقل جنگ بندی، غزہ کی پٹی سے قابض فوج کے مکمل انخلاء، بے گھر افراد کی گھروں کو واپسی ، امداد کی فراہمی، اور بحالی اور تعمیر نو کے سفر کا آغاز شامل ہے، کو منوانے کے لیے کسی بھی اقدام کے لیے تیار ہے۔”
حماس کے رہنما نے زور دے کر کہا کہ گیند اسرائیلی کورٹ میں ہے کیونکہ قابض وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے مستقل جنگ بندی کو مسترد کر دیا ہے اور ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے خلاف اپنی جارحیت جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ نیتن یاہو اپنے خلاف قانونی کارروائی کے خوف سے ٹال مٹول کرتے ہوئے جھوٹ بول رہا ہے اور جنگ کو مزید طوالت دینا چاہتا ہے۔
قبل ازیں اسرائیلی براڈکاسٹنگ کارپوریشن (سرکاری) نے نامعلوم سیاسی ذرائع کے حوالے سے کہا تھا کہ نیتن یاہو نے حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے حوالے سے قطری دارالحکومت دوحہ میں نئی بات چیت کے لیے مذاکراتی وفد بھیجنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
ذرائع کے مطابق اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ حماس کی جاناب سے جنگ کے خاتمے کی ضمانت حاصل کرنے کے اپنے مطالبے کو ترک کرنے کے بعد اسرائیلی حکام معاہدے کے مضمرات پر متفق ہونے کے بارے میں پر امید ہیں۔
المیادین ٹی وی نے حماس کے باخبر ذرائع کے حوالے سے بتایا تھا کہ تحریک نے اسرائیل کی تازہ ترین تجویز میں نئی ترامیم اس انداز میں پیش کی ہیں کہ بنیادی مسائل پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
ذرائع کے مطابق حماس نے مستقل جنگ بندی، مکمل انخلا اور بے گھر ہونے والوں کی واپسی پر اپنے موقف کو برقرار رکھا۔
حماس نے اپنے مطالبات میں فلاڈیلفیا محور اور رفح کراسنگ سےاسرائیلی انخلاء پر مصر ہے اور عمر قید کی سزا پانے والوں کی رہائی پر کوئی "ویٹو” دینے سے انکار کرتی ہے۔