فلسطین میں نو ماہ سےجاری طوفان الاقصیٰ معرکے کے نتیجے میں بڑی تعداد میں آباد کار مقبوضہ فلسطین سے چلےگئے ہیں۔
دوسری جانب سابق قابض وزیراعظم نفتالی بینیٹ نےیہودی آباد کاروں سےمقبوضہ فلسطینی علاقوں میں موجود رہنے کامطالبہ کرنے پر آمادہ کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سنہ 1948ء کے بعد سے اسرائیل کے لیے یہ سب سے مشکل وقت ہے۔
بینیٹ ’ایکس‘ پلیٹ فارمپر ایک پوسٹ میں کہا کہ میں اپیل کرتا ہوںکہ یہودی آباد کار ملک نہ چھوڑیں۔
اس نے مزید کہا کہ”کل ایک شاندار سافٹ ویئر انجینیر (جس کا اس نے نام نہیں بتایا) نے مجھے بتایاکہ وہ اگلے تعلیمی سال (اگلے ستمبر کے اوائل) کے آغاز سے پہلے اسرائیل چھوڑ کر یورپکے کسی ملک چلاجائے گا۔ اس سے مجھے بہت دکھ ہوا”۔
بینیٹ کی کال اسرائیلیپاپولیشن اینڈ امیگریشن اتھارٹی کے اعداد و شمار کے انکشاف کے بعد آئی ہے۔ گذشتہاتوار جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 7 اکتوبر کو غزہ کی پٹی پر جنگ کے آغاز کے بعدسے اب تک نصف ملین سے زیادہ اسرائیلی چھوڑ چکے ہیں اور واپس نہیں آئے ہیں۔
بینیٹ نے کہا کہ”ہم آزادی کی جنگ (فلسطین پر قبضے اور 1948 کے نکبہ) کے بعد کے سب سے مشکلدور سے گذزر رہے ہیں۔ بین الاقوامی بائیکاٹ، ڈیٹرنس کو نقصان پہنچا، 120 اسرائیلیقید میں ہیں اور ان کے ہزاروں سوگوار خاندان پریشان ہیں۔الجلیل (شمالی مقبوضہ فلسطین) ویران، ہزاروں بے گھرافراد، وزراء کوصرف اپنی فکر ہے، معیشت پر کنٹرول ختم اور معاشی خسارہ حد سےزیادہہوچکا ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہملک چھوڑنے کی بات نہیں ہونی چاہیے۔ ہمیں اس سرنگ سے نکلنے کے لیے اسرائیل کےلوگوں کی تمام صلاحیتوں اور لگن کی ضرورت ہے”۔