غزہ میں جاری نسل کشی کی صہیونی جنگ میں دشمن ریاست کی شکست فاش نوشتہ دیواربن چکی ہے۔ پوری دنیا بالخصوص امریکہ اور برطانیہ کے میڈیا ادارے بھی چیخ چیخ کر غزہ میں اسرائیلی شکست اور اسلامی تحریک مزاحمت حماس کی فتح اور طاقت کا اعتراف کررہے ہیں۔
امریکی میگزین فارن افیئرزنے غزہ میں نو ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت پر تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ”غزہ کی پٹی میں نو ماہ کی اسرائیلی جنگی کارروائیوں کے بعد بھی حماس کو شکستنہیں ہوئی ہے اور نہ ہی اسرائیل حماس کو شکست دینے کے قریب ہے پہنچا ہے”۔
امریکی جریدے نے مزیدکہا کہ "اسرائیل” نے تقریباً 40000 فوجیوں کے ساتھ غزہ کی پٹی پر حملہکیا۔ 80 فیصد آبادی کو زبردستی بے گھر کر دیا 37000 سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید کیا۔پٹی پر کم از کم 70000 ٹن بم گرائے۔ اس کی نصف سے زیادہ عمارتوں کو تباہ کردیا۔پانی، خوراک اور بجلی تک رسائی بند کی۔ پوری آبادی کو فاقہ کشی کے دہانے پر چھوڑ دیا۔اگرچہ بہت سے مبصرین نے اسرائیل کے رویے کی غیر اخلاقی باتوں کو اجاگر کیا، اسرائیلیرہنما مسلسل یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ وہ حماس کو شکست دینے اور اس کی صلاحیت کوکمزور کرنے کے قریب ہیں، لیکن اب جو بات واضح ہو گئی ہے وہ یہ ہے کہ "حماس کیطاقت دراصل بڑھ رہی ہے”۔
میگزین کے مطابق”اسرائیل” کی حکمت عملی میں مرکزی خامی حکمت عملی کی ناکامی نہیں ہے،بلکہ یہ تباہ کن ناکامی حماس کی طاقت کے ذرائع کے بارے میں غلط فہمی تھی جس نے”اسرائیل” کو بہت نقصان پہنچایا۔ وہ یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ اس نےغزہ پر جو قتل عام اور تباہی مسلط کی، اس نے مزاحمت کی طاقت میں اضافہ ہی کیا۔
ایک امریکی اہلکار نے CBS کوبتایا کہاسرائیل کا غزہ میں جنگ کے بعد کے دن کے لیے کسی بھی منصوبے تک نہ پہنچنا "حماسکو تباہ کرنے” کے ہدف میں ناکامی کا ثبوت ہے۔
قبل ازیں اسرائیلی قابضفوج کے ترجمان ڈینیئل ہاگاری نے کہا تھا کہ حماس کو تباہ کرنے کی بات ’’اسرائیلیوںکی آنکھوں میں دھول جھونکنے مترادف ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اگر فلسطینیحکومت حماس کا متبادل نہیں ڈھونڈتی تو حماس برقرار رہے گی‘‘۔
اسرائیلی حملے کے نتیجے میںامریکی میگزین کا کہنا ہے کہ حماس کی طاقت درحقیقت بڑھ رہی ہے، جس طرح بڑے پیمانےپر "تلاش اور تباہی” کے دوران "ویت کاننگ” (نیشنل فرنٹ فار دیلبریشن آف ساؤتھ ویتنام) کی طاقت میں اضافہ ہوا تھا۔ اس کا اشارہ ان کارروائیوں کی طرف تھا جنہوں نے 1966ء اور 1967ءمیں جنوبی ویتنام کے بیشتر حصوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
میگزین کے مطابق حماس غزہمیں ایک ضدی اور مہلک "گوریلا” فورس کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ اس کےساتھ شمالی علاقوں میں زمینی کارروائیاں دوبارہ شروع ہو گئی ہیں جن پر اسرائیل نےصرف چند ماہ قبل قبضہ کرنےکا دعویٰ کیا تھا۔
شاید جو لوگ غزہ میں جنگکے مناظر کی پیروی کرتے ہیں وہ قابض افواج کے خلاف القسام بریگیڈز کی طرف سے اپنیکارروائیوں کے نشر کیے گئے ویڈیو کلپس دیکھ کر حیران رہ جائیں گے۔ القسام مجاھدینغزہ میں گھسنے والی قابض فوج پر کئی محاذوں سے حملے کرتے ہیں۔ یہ حملے اس بات کاثبوت ہیں کہ اسرائیل حماس کو کچلنے کے اپنے دعوے میں ناکام رہا ہے۔
اس موقع پر برطانویاکانومسٹ میگزین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کی پہلی ناکامی حکمت عملی ہے، کیونکہ یہالزام بنیادی طور پر اسرائیلی سیاست دانوں پر آتا ہے، خاص طور پر وزیر اعظم بنجمننیتن یاہو، جنہوں نے غزہ پر کنٹرول کرنے والی کسی بھی متبادل فلسطینی قوت کو قبولکرنے سے انکار کر دیا تھا۔ دوسری ناکامی جرنیلوں کی ہے جو حماس کی مزاحمتی طاقت کادرست اندازہ نہیں لگا سکے۔
فوج کی دوسری ناکامی یہ ہے کہ یہ انہوں نے اندازہ نہیںلگایا کہ یہ جنگ کتنی طویل ہوگی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی سے عامشہریوں کے قتل عام سے اسرائیل کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔
اس کی دو توجیہات ہیں۔ پہلییہ کہ آپریشنل ہدایات جو شہریوں کے مارے جانے کا امکان زیادہ ہونے پر بھی حملوں کیاجازت دیتی ہیں۔ دوسرا اسرائیلی فوج کے اندر ان قوانین کی پابندی کرنے میں نظم وضبط کا فقدان ہے۔
دی اکانومسٹ نے غزہ میںخدمات انجام دینے والے ایک ریزرو افسر کے حوالے سے کہا کہ "تقریباً کوئی بھیبٹالین کمانڈر یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ پٹی میں چلنے والی ہر چیز دہشت گرد ہے یاعمارتوں کو تباہ کر دینا چاہیے کیونکہ وہ انہیں حماس استعمال کرسکتی ہے”۔ اسحکمت عملی کے نتیجے میں بڑی تعداد میں عام شہری مارے گئے اور عمارتیں تباہ ہوئیں۔