جمعه 15/نوامبر/2024

ڈیڑھ لاکھ یہودی آباد کاروں کا نیتن یاھو کا تختہ الٹنے کا مطالبہ

اتوار 23-جون-2024

اسرائیلی ریاست میں نیتنیاہو حکومت کے خلاف دسیوں ہزار افراد کے ہفتہ وار احتجاج کی مہم اس ہفتے کے روز بھیجاری رہی ہے۔ ہفتے کے روز کی تل ابیب میں احتجاجی ریلی میں دسیوں ہزار اسرائیلی شریکہوئے۔

ریلی کے شرکاء کے ہاتھوںمیں اسرائیلی جھنڈے زبانوں پر نئے انتخابات کرانے کے لیے زور دار نعرے تھے۔ ریلیکے منتظمین کے مطابق ریلی میں ڈیڑھ لاکھ کی تعداد میں اسرائیلی شریک رہے۔

تل ابیب میں نکالی گئیاس ریلی کے یہ ہزاروں شرکاء اس امر پر بھی غصے میں تھے کہ اس قدر طویل جنگ کےباوجود نیتن یاہو حکومت یرغمالیوں کو واپس لانے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکیہے۔ نیتن یاہو حکومت کی جگہ نئی منتخب حکومت کو لانے کے لیے جاری احتجاج کو اسرائیلیاپوزیشن جماعتوں کی بھی حمایت حاصل ہے۔

یہ احتجاج سات اکتوبر سےجاری جنگ جو اب نویں ماہ کو پہنچنے والی ہے کے ساتھ ساتھ ہی نیتن یاہو حکومت کےخلاف جاری ہے۔ اس سارے عرصے میں احتجاج کی کوئی نہ کوئی صورت باقی رہی ہے۔ جو نیتنیاہو کی جنگی حکمت عملی کو نشانہ بنانے کے علاوہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے حماسسے معاہدہ کرنے پر زور دینے کے لیے ہوتا رہا مگر مبصرین کے مطابق نیتن یاہو جنگ کواپنی سیاست بچانے کے لیے طویل کر رہے ہیں۔

اسرائیلی حکومت کی جنگکو غیر ضروری طوالت دینے کے پیچھے سیاسی بقا کے معاملے کی نشاندہی امریکی صدرجوبائیڈن بھی بھی کر چکے ہیں اور کھل کر اسرائیلی وزیر اعظم کا نام بھی لے چکے ہیں۔

ہفتے کے روز سامنے آنےوالی تل ابیب میں احتجاجی ریلی کے شرکاء اسی سبب نیتن یاہو کو پرائم منسٹر کےبجائے ‘ کرائم منسٹر ‘ کے نام سے کتبے لکھ کر لائے تھے۔ کتبوں پر جنگ روکو ، جنگختم کرو کے نعرے بھی درج تھے۔

ریلی میں شریک ایک شخص66 سالہ ٹھیکیدار شائی ایرل نے کہا ‘ میں اس لیے ریلی میں شریک ہوں کہ میں اپنےپوتے کے اسرائیل میں مستقبل کے حوالے سے خوفزدہ ہوں، اگر ہم نے اس خوفناک حکومت سےنجات نہ پائی تو ہماری اگلی نسل کا یہاں کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔’

اس کا یہ بھی کہنا تھاکہ ‘اسرائیلی پارلیمنٹ میں تو سارے چوہے بیٹھے ہوئے ہیں ہم ان کو کس طرح اپنے بچوںکے مستقبل کی حفاظت کی ذمہ داری دے سکتا ہوں۔’

کئی احتجاجی شہری اسرائیلی’شہر کے ڈیمو کریسی سکوائر’ پر زمین پر لیٹ کر احتجاج کر رہے تھے کہ نیتن یاہو کیحکومت کے ہوتے ہوئے ملک میں جمہوریت کی موت ہو چکی ہے۔

ریلی کے شرکاء سے اسرائیلیخفیہ ادارے شین بیٹ کے سابق سربراہ یوول ڈسکن نے خطاب کرتے ہوئے کہا ‘ نیتن یاہوملک کا بد ترین وزیراعظم ہے۔’ ریلی کے شرکاء کی اکثریت جنگ کی طوالت سے تنگ تھیاور سمجھ رہی تھی کہ نیتن یاہو اور اس کے انتہا پسند اتحادی صرف اپنی سیاست کے لیےجنگ کو لمبا کر رہے ہیں۔ مگر اس سے اسرائیل کا نقصان ہو رہا ہے۔

ایک پچاس سالہ شکس جس نےصرف اپنے پہلے نام کا بتانا کافی سمجھا کہا ‘ میں ہر ہفتے احتجاج کا حصہ بنتا ہوںکہ نئے انتخابات اسرائیلی کی ضرورت ہیں، نیتن یاہو نہیں۔ اس کے مطابق اگر انتخاباتکو 2026 تک التوا میں رکھا گیا تو اس کے نتیجے میں جمہوریت باقی نہیں رہے گی۔

واضح رہے ہفتے کے روز کیتل ابیب کی اس احتجاجی ریلی کے شرکاء کے سات اکتوبر سے اب تک سب سے زیادہ تھے اور یہریلی سب سے بڑی تھی۔

مختصر لنک:

کاپی