اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘کے رہ نما اسامہ حمدان نے کہا ہے کہ اگرامریکہ غیر جانب دار ہو اور اسرائیل کیآنکھ سے نہ دیکھے تو غزہ میں جنگ بندی ممکن ہےان کا کہنا تھا کہ حماس سیز فائر کےبارے میں واضح اسرائیلی موقف چاہتی ہے۔ نیز غزہ سے مکمل انخلا کے بعد فلسطینیوں کواپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار بھی حماس کے مطالبے میں شامل ہے۔ انہوں نے مزیدکہا کہ قیدیوں کے تبادلے کے لیے ہم کسی بھی فیئر ڈیل پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
معاہدے تک پہنچنے میںمدد فراہم کرنے والے ثالث ملکوں مصر، امریکہ اور قطر کے مذاکرات جاری ہیں۔ حماس کےرہ نما بتایا کہ بال اب اسرائیلی کورٹ میں ہے کیونکہ اسرائیل کو ہمارا جواب ثالثوںکے ذریعے بھجوایا جا چکا ہے۔
حماس اور اسلامی جہاد کےمشترکہ وفد نے معاہدے میں ثالثی کا کردار ادا کرنے والے ملک قطر کو اپنا جواب قطریوزیر اعظم محمد بن عبدالرحمن آل ثانی سے ملاقات میں پیش کیا تھا۔
حماس کے ذرائع نے بتایاہے ’’جماعت کو پیش کیے جانے والے مجوزہامریکی منصوبے میں پائیدار سیز فائر کا ذکر شامل نہیں اور نہ ہی غزہ کی پٹی سےاسرائیلی انخلا سے متعلق دفعہ اس میں شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’مزیدمعاہدے کے تین مراحل کے درمیان کسی ٹائم ٹیبل کا ذکر بھی مفقود ہے۔ پہلا مرحلہ 42روزہ فائر بندی پر مشتمل ہو گا اور اس میں کئی قیدیوں کا تبادلہ ہو گا۔ نیز دشمنغزہ کی پٹی کے کچھ علاقوں سے بھی نکل جائے گا۔ اس کے بعد دوسرے مرحلے کا آغاز ہوگا جس میں لڑائی کا مستقل خاتمہ اور غزہ کی پٹی سے اسرائیل کا مکمل انخلا عمل میںآئے گا‘‘۔