امریکی اخبار ’نیویارکٹائمز‘ کی جانب سےایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اس نے گذشتہ اتوار کو رفح میں اسرائیلیقابض فوج کی طرف سے کیے گئے قتل عام سے موصول ہونے والی تصاویر کا "بصری تجزیہ”کیا ہے۔اس حملے کی وجہ سے درجنوں فلسطینی شہریوں کی شہادت ہوئی تھی۔ تجزیہ سےمعلوم ہوا کہ قابض فوج نے جو میزائلاستعمال کیے وہ امریکی ساختہ تھے۔
اخبار نےکہاکہاسے "ہتھیاروں اور بصری شواہد کے ماہرین” نے جانچ پرکھ کی۔ جنہوں نے قتل عام کے بارے میں پھیلنےوالی تصاویر کا جائزہ لیتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ "اگلے دن حملے کے مقامپر جو گولہ بارود کا ملبہ لیا گیا تھا، وہ ’جی بی یو‘39 بم کی باقیات تھیں۔ ایک ایسا بم جسے امریکہ میں ڈیزائن اور تیار کیاگیا تھا اس کا وزن 17 کلو گرام ہے۔”
امریکی سی این اینکے اس واقعے کے بارے میں تجزیے کے مطابق، جائے وقوعہ کی ایک ویڈیو، جس کا دھماکہ خیزہتھیاروں کے ماہرین نے تجزیہ کر کے انکشاف کیا ہے کہ رفح میں پناہ گزینوں کے لیےلگائے گئے کیمپ پر حملے میں استعمال ہونے والا گولہ بارود امریکی ساختہ ہی تھا۔
سی این این نےجغرافیائی محل وقوع سے متعلق ویڈیو کلپس جو ‘کویت پیس کیمپ 1’ کے نام سے مشہور بےکیمپ پر چھاپے کے بعد خیموں میں آگ لگتے ہوئے دکھائے۔یہ ماڈل GBU-39 سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ہے۔
ایک ویڈیو میں کیمپکے داخلی راستے کے نشان اور زمین پر ٹائلوں سمیت تفصیلات کو ملا کر اسی منظر کاحوالہ دیا، اس میں امریکی ساختہ چھوٹے قطر والے GBU-39 بم (SDB) کی دم بھی دکھائیگئی۔ جو اسلحے کے امریکہ ساختہ ہونے کی گواہی کہی جا سکتی ہے۔ دھماکہ خیز اسلحے یا’ ویپن٫ آف ماس ڈسٹریکشن ‘کے چار ماہرین نے ویڈیو کا جائزہ لینے کے بعد اپنا جائزہپیش کیا ہے۔ ‘
دھماکہ خیز ہتھیاروںکے ماہر کرس کوب سمتھ نے وضاحت کی کہ بوئنگ کے ذریعہ تیار کردہ GBU-39 بم ہے۔ اسے اسٹریٹجک اہمیت کے اہداف پر حملہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیاگیا ہے، اور اس کی وجہ سے ‘ کولیٹرل ڈیمیج ‘ کم ہوتا ہے۔ ‘
تاہم، اسمتھ، جوکہ برطانوی فوج کے توپ خانے کے سابق افسر بھی ہیں، ان کا کہنا ہے کسی بھی گولہ باریکا استعمال، گنجان آبادی والے اور پرہجوم علاقے میں ہمیشہ خطرات اور نقصان کا سببہی ہو گا۔’
اسی طرح ٹریوربال، امریکی فوج کی دھماکہ خیز آرڈیننس ڈسپوزل ٹیم کے سابق سینئر رکن نے اشارتاکہا ہے کہ موقع پر بم کا ٹکڑا GBU-39 بمکا تھا۔ پال نے یہ بھی نتیجہ اخذ کیا کہ اگرچہ GBU-39 بم کا ایک مختلف قسم تھا جسے’ فوکسڈ لیتھل میونیشن’ (FLM) کہا جاتا تھا جس میں بڑا دھماکہ خیز پے لوڈہوتا تھا لیکن اسے کم کولیٹرل ڈیمیج کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا، لیکن اس کیس میںاستعمال ہونے والا ویریئنٹ نہیں تھا۔
اس کے علاوہ، دواضافی دھماکہ خیز ہتھیاروں کے ماہرین، رچرڈ ویئر، ہیومن رائٹس واچ کے ایک سینئراور تنازعات کے محقق کرس لنکن جونز، جو ایک سابق برطانوی فوج کے توپ خانے کے افسراور ہتھیاروں اور ہدف سازی کے ماہر بھی ہیں، نے اس ٹکڑے کی شناخت ایک امریکی ساختہکے طور پر کی ہے۔
سٹاک ہوم انٹرنیشنلپیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ طویل عرصے سے اسرائیل کوہتھیار فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک رہا ہے اور غزہ پر حملے پر بائیڈن انتظامیہپر بڑھتے ہوئے سیاسی دباؤ کے باوجود یہ حمایت مسلسل جاری رکھی ہے۔ ابھی پچھلے مہینےہی جو بائیڈن نے ایک غیر ملکی امدادی بل پر دستخط کر کے اسرائیل اور حماس کے درمیانتنازعہ کے لیے 26 ارب ڈالر کی امداد کی منظوری دی ہے ۔
اس امداد میں سے15 ارب ڈالر اسرائیلی فوجی امداد، 9 بلین ڈالر غزہ کے لیے انسانی امداد، اور 2.4بلین ڈالر علاقائی امریکی فوجی کارروائیوں کے لیے شامل ہیں۔
علاوہ ازیں بھی ایکارب ڈالر کی مزید امریکی امداد اسرائیل کے لیے اب پراسس میں ڈال دی گئی ہے۔
ماہرین میں سے کئیایسے بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ امریکی اسلحہ کی اگر وقتی طور پر ترسیل روکی گئی ہےتو اس سے پہلے والی اسلحہ کھیپ کے استعمال پرتو کوئی پابندی نہ تھی کہ اسے اسرائیلاستعمال نہ کر سکتا تھا۔ یہ غزہ جنگ تو اکیلے اسرائیلی کی لڑی گئی جنگ ہی نہیں۔