بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر کریمخان نے ایک برطانوی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہواور وزیردفاع یوآو گیلنٹ کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی درخواست کے اپنے فیصلےکو درست قرار دیا۔
خان نے کہا کہ وہنیتن یاہو اور گیلنٹ کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسکے علاوہ حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ھنیہ، غزہ کی پٹی میں تحریک کے سیاسیبیورو کے سربراہ یحییٰ السنوار اور القسام کمانڈر محمد ضیف پرجنگی جرائم اور انسانیتکے خلاف جرائم کے ارتکاب کے الزامات عاید کیے گئے ہیں۔
ان کے اس اعلاننے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں، امریکہ اور برطانیہ کو غصہ دلایا۔
پاکستانی نژاد کریمخان جوعوام میں کم ہی بولتے ہیں نے ’سنڈے ٹائمز‘ کو بتایا کہ "یہ بین الاقوامیسطح پر ایک خطرناک لمحہ ہے اور جب تک ہم قانون کو برقرار نہیں رکھتے ہمارے پاسبچانے کے لیے کچھ نہیں ہوگا”۔
انہوں نے مزیدکہا کہ لاطینی امریکہ، افریقہ اور ایشیا کے ممالک اس صورت حال پر گہری نظر رکھےہوئے ہیں کہ آیا عالمی ادارے بین الاقوامی قانون کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں گے یانہیں۔
خان نے سوال کیا:”کیا طاقتور ممالک یہ کہنے میں مخلص ہیں کہ ایک قانونی ادارہ ہے، یا یہاصولوں پر مبنی نظام محض بکواس ہے اور نیٹو کا ایک آلہ ہے، جو کہ ایک ما بعدنوآبادیاتی دنیا ہے، جس کا قانون کو یکساں طور پر لاگو کرنے کا کوئی ارادہ نہیںہے؟”۔
اگر ’آئی سی سی‘کے ججوں سےوارنٹ منظور ہو جاتے ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ عدالت میں شامل ہونے والے124 ممالک میں سے ہر ایک تکنیکی طور پر نیتن یاہو اور دیگر کو گرفتار کرنے کاپابند ہو گا جن کے خلاف وارنٹ جاری کیے جاتے ہیں اگر وہ اس سے رجوع کریں۔ لیکنعدالت کے پاس ایسا طریقہ کار نہیں ہے جو اسے اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کرنے کیاجازت دے۔
انہوں نے مزیدکہا کہ اسرائیل کو اپنی آبادی کے تحفظ اور قیدیوں کو واپس کرنے کا پورا حق حاصل ہےلیکن کسی کے پاس بھی جنگی جرائم یا انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے کالائسنس نہیں۔
انہوں نے اسرائیلکے خلاف کئی الزامات کی طرف اشارہ کیا جن میں” پانی بند کرنا، خوراک کے حصولکے لیے قطار میں کھڑے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا اور امدادی اداروں کےکارکنوں کوہلاک کو ہلاک کرنا شامل ہے‘‘۔
کریم خان نے کہاکہ جنگ اس طرح نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ "اگر بین الاقوامیانسانی قانون کی تعمیل ایسا ہی نظر آتی ہے تو پھر جنیوا کنونشنز کا کوئی مقصد نہیںہے”۔