اسلامی تحریک مزاحمت’حماس‘ کے رہ نما حمدان نے اعلان کیا کہ گذشتہ جنوری میں مذاکرات کے آغاز کے بعدسے حماس کے اصولی موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلیجارحیت کو روکنے، قابض افواج کے انخلاء، بے گھر لوگوں کی اپنے گھروں کو واپسی سےپہلے مذاکرات کی طرف واپسی نہیں ہوگی۔
انہوں نے غزہ میں جارحیت روکنے کے لیے عالمیعدالت انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد پر زور دیا۔
انہوں نے الجزیرہکو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے اوراس حوالے سے حماس کو کچھ بھی نہیں بتایا گیا۔ انہوں نے مذاکرات کی طرف واپسی کےبارے میں اسرائیلی بات کو عالمی عدالت انصاف کے فیصلے سے بچنے کی کوشش قرار دیا۔انہوںنے کہا کہ کچھ قوتیں امریکہ کو غزہ کی پٹی میں ہونے والی نسل کشی کے جرم میں ملوثہونے سے بری کرنا چاہتی ہیں۔
انہوں نے نشاندہیکی کہ غزہ کی پٹی کے جنوب میں واقع شہر رفح میں فوجی کارروائیوں کو روکنے کے لیے بینالاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظوریدرکار ہے۔ مگر امریکہ اس کے لیے ویٹو پاور کا استعمال کرسکتا ہے‘‘۔
حمدان نے زور دےکر کہا کہ مذاکرات کی واپسی کے بارے میں اسرائیلی بات "سنجیدہ نہیں” ہےاور اس وقت اسرائیلی جارحیت کو روکنا اور غزہ کی پٹی سے قابض فوجوں کو مکمل طور پرعدالت انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے واپس کرنا ہے۔ اس کے بعد مذاکراتہوسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہمعاملہ نئے مذاکرات کا متقاضی نہیں ہے کیونکہ حماس نے ثالثوں کی طرف سے پیش کی گئیتجویز پر قابض ریاست کی منظوری کے بعد رضامندی ظاہر کی تھی اور اس لیے درست اقدام یہہے کہ اسرائیلی فریق عدالت اپنی افواج کو نکالے اورغزہ کو امداد کی اجازت دے۔
انہوں نے متنبہ کیاکہ "تجویز میں ترمیم پرغور کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرف اسرائیلیوں کو اپنیجارحیت کو جاری رکھنے کے لیے مزید وقت دینا ہے۔ دوسری طرف عالمی عدالت انصاف کے اسفیصلے سے بچنے میں ان کی مدد کرنا ہے جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کیاجائے گا۔