کل ہفتے کو فرانسیسی حکام نے فلسطینی ڈاکٹر غسان ابو ستہ کوملک میں داخل ہونے سے روک دیا، جہاں انہیں فرانسیسی سینیٹ کے سامنے خطاب کرنا تھا۔
ڈاکٹر ابو ستہ نے اعلان کیا کہ چارلس ڈی گال ہوائی اڈے کے حکام نے انہیں ان کی آمد پر گرفتار کیا اور انہیں فرانس میں داخل ہونے سے روکنے کے فیصلے سے آگاہ کیا جس کے بعد ملک سے باہر بھیج دیا جائے گا۔
غسان ابو ستہ کی گواہی کی اہمیت، جس سے اسے فرانسیسی سینیٹ کے سامنے روکا گیا تھا غزہ کی پٹی میں 8 اکتوبر کو یعنی جنگ شروع ہونے کے ایک دن بعد بطو رضاکار ڈاکٹر کی موجودگی کی وجہ سے سامنے آتی ہے۔
ڈاکٹر ابو ستہ 42 دن تک غزہ کی پٹی میں رہے، جہاں انہوں نے الشفاء اور المعمدانی ہسپتالوں کے درمیان اپنے فرائض انجام دیے اور اس وقت ان دونوں ہسپتالوں کے اطراف میں ہونے والی جارحیت کے جرائم کا مشاہدہ کیا۔
ابو ستہ بیپٹسٹ ہسپتال کے قتل عام کے زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک ہیں ۔ اسرائیلی قابض فوج نےوہاں قتل عام کیا تھا۔
وہ اسرائیلی قابض ریاست کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت کے سامنے گواہی دیں گے۔
فلسطینی ڈاکٹر پر دیگر شخصیات کے ساتھ 12 اپریل کو جرمنی میں داخل ہونے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی تاکہ وہ دارالحکومت برلن میں منعقد ہونے والی "فلسطین کانفرنس” میں شرکت کر سکیں۔
ابو ستہ نے اس وقت یورپ پر الزام لگایا کہ وہ نسل کشی کی شہادتوں کو خاموش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔