اتوار کے روزاسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کا ایک وفد مصر کے دارالحکومت قاہرہ پہنچا اور مصر کےوزیر انٹیلی جنس عباس کامل سے ملاقات کی۔
حماس نے ایک بیانمیں کہا ہے کہ اس کے وفد نے "اپنے فطری قومی تقاضوں پر عمل پیرا ہونے اور اسرائیلیجارحیت کے مکمل خاتمے، قبضے سے دستبردار ہونے کے معاہدے تک پہنچنے کے لیے اپنیخواہش کا اعادہ کیا۔
مرکزاطلاعاتفلسطین کو موصول ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے لیےحماس کا اصولی موقف وہی ہے جو پہلے تھا۔ ہمارے مطالبات آئینی ہیں۔
بیان میں کہا گیاہے کہ حماس کے وفد نے مصری انٹیلی جنس چیف سے ملاقات میں جنگ بندی کے حوالے سےاپنے مطالبات کو دہرایا۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں موجود اسرائیلی فوج کیمکمل واپسی، جنگ سے متاثرہ شہریوں کی فوری امداد، بے گھر فلسطینیوں کی ان کے گھروںکو واپسی اور قیدیوں کے باوقار معاہدے کے لیے دونوں طرف سے قیدیوں کی رہائی حماسکے اہم مطالبات ہیں۔
انہوں نے وضاحت کیکہ وفد نے اس بات کی بھی توثیق کی کہ "تحریک تمام فلسطینی قوتوں اور دھڑوں کےساتھ مل کر اپنے قومی اہداف کے حصول اور ایک مکمل خودمختار فلسطینی ریاست کے قیامکے لیے جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو اور پناہ گزینوں کی حق واپسی مطالبے پراصرار کرتی ہے۔
اسرائیل نے ساتھاکتوبر سے جاری جنگ میں غزہ کی پٹی میں فلسطینی عوام کے خلاف وسیع پیمانے پرانتقامی پالیسی اپنا رکھی ہے جس کے تحت غزہ کے عوام کے لیے خوراک ، ادویات اورپانی کی فراہمی معطل کردی گئی ہے۔
غزہ کے حکام اوربین الاقوامی اداروں اور تنظیموں کے مطابق، غزہ پر قابض فوج کی مسلسل جارحیت کے نتیجےمیں 33175 فلسطینی شہید اور 75886 افراد زخمی ہوچکے ہیں جب کہ پٹی کی تقریباً 85فیصد آبادی بے گھر ہے۔