پنج شنبه 23/ژانویه/2025

اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل میں اسرائیل کے خلاف قرارداد منظور

جمعہ 5-اپریل-2024

اقوام متحدہ کیانسانی حقوق کونسل نے جمعے کو پاکستان کی ایک قرارداد منظور کر لی ہے جس میں اسرائیلکو غزہ کی پٹی میں ممکنہ جنگی اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ذمہ دار ٹھہرانے کامطالبہ کیا گیا ہے۔

برطانوی خبر رساںادارے روئٹرز کے مطابق قرارداد کے حق میں 28 ممالک نے ووٹ دیا، 13 غیر حاضر رہےاور چھ نے قرارداد کے خلاف ووٹ دیا۔

فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے قرارداد میںغزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے دوران فلسطینی شہریوں کی نسل کشی کے انتباہ کواجاگر کرتے ہوئے اسرائیل کو اسلحے کی فروخت روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ پہلا موقع ہےکہ جب اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اعلیٰ ادارے نے محصور فلسطینی علاقے کو ہدفبناتے ہوئے اب تک کی سب سے خونریز جارحیت کے بارے میں کوئی موقف اختیار کیا ہے۔

قرارداد کے متن میںممالک سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کو اسلحے، گولہ بارود اور دیگر فوجیسازوسامان کی فروخت اور منتقلی بند کریں۔

قرارداد میں کہاگیا ہے کہ ’بین الاقوامی انسانی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں‘ کو روکنےکے لیے دیگر اقدامات سمیت اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی روکنے کی کی ضرورت ہے۔

قرارداد میں کہاگیا ہے کہ بین الاقوامی عدالت انصاف نے جنوری میں فیصلہ دیا تھا کہ غزہ میں ’نسلکشی کا خطرہ ہے۔‘

پاکستان نے البانیہکو چھوڑ کر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے تمام رکن ممالک کی طرف سے جمعے کو یہقرارداد پیش کی۔ قرارداد میں غزہ میں ’فوری فائربندی‘ اور ’ہنگامی بنیادوں پرانسانی رسائی اور امداد‘ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

قبل ازیں گذشتہہفتے نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی بالآخر ایک قرارداد منظور کیجس میں فائر بندی کا مطالبہ کیا گیا۔ امریکہ نے اس قرارداد پر رائے شماری میں حصہنہیں لیا جو اسرائیل کا قریبی اتحادی اور اسلحے کے سب سے بڑا فراہم کنندہ ہے۔

تاہم فائر بندیکے مطالبے کا عملی طور پر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

وزارت صحت کےمطابق سات اکتوبر کے بعد سے حماس کے زیر انتظام غزہ میں اسرائیل حملوں میں  کم از کم 33037 فلسطینی شہری جان گنوا چکے ہیںجن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔

قرارداد کے سختالفاظ میں لکھے گئے متن میں بار بار اسرائیل کا نام لیا گیا ہے اور اس بات پر زوردیا گیا ہے کہ وہ ’قابض طاقت‘ ہے۔

قرارداد میںمطالبہ کیا گیا ہے کہ اسرائیل تمام فلسطینی علاقوں پر اپنا قبضہ ختم کرے اور ’غزہکی پٹی کی ناکہ بندی اور تمام قسم کی دیگر اجتماعی سزائیں دینا فوری طور پر ختمکرے۔‘

ممالک پر زور دیاگیا ہے کہ وہ ’غزہ میں اور وہاں سے فلسطینیوں کی مسلسل جبری منتقلی رکوائیں۔‘

قرارداد میں خاصطور پر غزہ کی گنجان آباد پٹی کے جنوب میں واقع شہر ’رفح میں بڑے پیمانے پر اسرائیلیفوجی کارروائیوں کے خلاف‘ خبردار کیا گیا ہے جہاں 10 لاکھ سے زیادہ فلسطینی شہریوںنے پناہ لے رکھی ہے۔

قرارداد کے مسودےمیں غزہ میں شہریوں کی بھوک کو جارحیت کے طریقے کے طور پر استعمال کرنے کی بھیمذمت کی گئی ہے، جہاں اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ قحط جاری ہے۔

قرارداد می انسانیہمدردی کی بنیاد پر رسائی سے اسرائیل کے غیر قانونی انکار، امدادی سامان کی فراہمیمیں جان بوجھ کر رکاوٹ ڈالنے اور خوراک، پانی، بجلی، ایندھن اور ٹیلی کمیونیکیشنسمیت شہریوں کی بقا کے لیے ناگزیر سامان سے محروم کرنے کی مذمت کی گئی ہے۔

قرارداد کے متن میںاسرائیل کی جانب سے غزہ کے گنجان آباد علاقوں میں دھماکہ خیز ہتھیاروں کے استعمالکی بھی مذمت کی گئی ہے۔

قرارداد کے مسودےمیں اس حقیقت کی مذمت کی گئی ہے کہ اسرائیل نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کیجانب سے متعدد تحقیقات میں تعاون کرنے سے مسلسل انکار کیا ہے۔

قرارداد میں غزہمیں ’بین الاقوامی قانون کی تمام خلاف ورزیوں کے قابل اعتماد، بروقت اور جامعاحتساب کی ضرورت‘ پر زور دیا گیا ہے۔

مقبوضہ فلسطینیعلاقوں میں انسانی حقوق کی صورت حال کے بارے میں انکوائری کمیشن سے مطالبہ کیا گیاہے کہ وہ اسرائیل کو اسلحے، گولہ بارود، پرزوں اور دوہرے استعمال کے سامان کی براہراست اور بالواسطہ منتقلی یا فروخت کی تحقیقات کرے۔

تفتیش کاروںکونسل کے 59 ویں اجلاس میں اپنے نتائج پیش کریں جو 2025 کے وسط میں ہو گا۔

مختصر لنک:

کاپی