اقوام متحدہ کیسلامتی کونسل جمعے کو غزہ میں فوری فائر بندی کی قرارداد منظور کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ اس قرارداد میں قیدیوں کی رہائی کا معاہدہ شامل تھا۔
حماس نے اس قرارداد کو پراسرار اور سیاسی مقاصد کے لیے اسرائیل کی حمایت پر مبنی قرار دیا تھا۔
یہ قرارداد امریکہنے پیش کی جسے روس اور چین نے ویٹو کر دیا۔
برطانوی خبر رساںادارے کے مطابق قرارداد، جس پر ہونے والی رائے شماری میں گیانا نے بھی حصہ نہیں لیا،میں غزہ میں فوری اور پائیدار فائر بندی پر زور دیا گیا جو تقریباً چھ ہفتوں تکجاری رہے، شہریوں کو تحفظ ملے اور انسانی امداد کی فراہمی ممکن ہو سکے۔
اس قرارداد میںاسرائیل کے بارے میں واشنگٹن کے مؤقف میں مزید سختی آئی۔ اس سے قبل پانچ ماہ تکجاری رہنے والی جارحیت میں امریکہ فائر بندی کے لفظ کے خلاف تھا اور اس نے ایسےاقدامات کو ویٹو کر دیا تھا جن میں فوری فائر بندی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔
اقوام متحدہ میںامریکی سفیر لِنڈا تھامس گرین فیلڈ نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ کونسل کی اکثریتنے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا لیکن بدقسمتی سے روس اور چین نے ویٹو کا حقاستعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔
اقوام متحدہ میںروس کے سفیر ویسیلی نیبنزیا نے بھی ووٹنگ سے قبل خطاب کرتے ہوئے ارکان پر زور دیاکہ وہ قرارداد کے حق میں ووٹ نہ دیں۔
ان کا کہنا تھاکہ یہ قرارداد ’انتہائی سیاسی‘ نوعیت ہے اور اس میں اسرائیل کو غزہ کی پٹی کے جنوبیسرے پر واقع شہر رفح میں فوجی آپریشن شروع کرنے کے لیے مؤثر گرین سگنل دیا گیا ہےجہاں کے 23 لاکھ رہائشیوں میں سے نصف سے زیادہ لوگوں نے شمال میں اسرائیلی حملے سےبچنے کے لیے عارضی خیموں میں پناہ لے رکھی ہے۔
نیبنزیا نے اجلاسکو بتایا کہ ’اس سے اسرائیل کے ہاتھ آزاد ہو جائیں گے اور اس کے نتیجے میں غزہ اوراس کی پوری آبادی کو تباہی، بربادی یا بے دخلی کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘
انہوں نے کہا کہسلامتی کونسل کے متعدد غیر مستقل ارکان نے ایک متبادل قرارداد کا مسودہ تیار کیاہے جسے انہوں نے متوازن دستاویز قرار دیا اور کہا کہ ارکان کی جانب سے اس کی حمایتنہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔