قابض اسرائیلیریاست کی طرف سے جاری وحشیانہ قتل عام اور نسل کشی کی جنگ تقریباً روزانہ کےاعتبار سے بزرگ اور بچے خوراک اور پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے شہید ہو رہے ہیں۔
فلسطینی محکمہصحت کے حکام کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی میں اسرائیلی نسل کشی کی جنگ میں فاقوں اورپانی کے فقدان کی وجہ سے بچےاور بزرگ شہری شہید ہو رہے ہیں۔
یورو-میڈیٹیرینینہیومن رائٹس آبزرویٹری کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہےکہ ان میں سے زیادہ تر کیسز ایسے ہسپتالوں تک نہیں پہنچ پاتے جو شمالی غزہ میں جزویطور پر کام کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ رسائی میں دشواری اور اسرائیلی فوج کی مسلسلکارروائیاں ہیں۔
رپورٹ میں بتایاگیا کہ نسل کشی کے جرم کے آغاز کے بعد سے پانچ ماہ کے اندر اسرائیلی حملے میں40000 سے زیادہ شہید ہوئے، جن میں سے تقریباً 92 فیصد عام شہری اور تقریباً 7 فیصدبزرگ تھے۔
رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ ہزاروں متاثرین ، زخمی اور بیمار سڑکوں پر پڑے ہوئے ہیں اور ان تکپہنچنا دشوار بنا دیا گیا ہے۔ اسرائیلی فوج کی طرف سے فلسطینی زخمیوں کو اٹھانے کےلیے ایمبولینسوں اور امدادی کارکنوں کو جانے کی اجازت نہیں دیتی۔
یورو میڈ نے 6مارچ کو شمالی غزہ کے کمال عدوان ہسپتال میں غذائی قلت اور پانی کی کمی کے نتیجے میںایک معمر شخص جس کی عمر 72 سال تھی کی موت واقع ہوئی۔
غزہ شہر کے ایکرہائشی محمد شحیبر نے الصبرہ کے محلے میں جہاں وہ رہتےہیں نے بتایا کہ 8 بزرگوں کی موت کی اطلاع دی۔وہ بھوک، طبی دیکھ بھال کی کمی اور سردی کے نتیجے میں مختلف پیچیدگیوں کا شکارتھے۔
یورو میڈ مانیٹرنے بتایا کہ سال 2023ء میں غزہ میں جنگشروع ہونے کے بعد ایک لاکھ سات ہزار شہری شہید اور زخمی ہوچکے ہیں۔