رفعت ! میں نے اپنے امریکی اخبار کے ایڈیٹر سے کہا مجھے آپ کی تعریف کرنا پسند ہے مگر میں ایسا کچھ نہیں کر پایا۔ وجہ کچھ اور نہیں بنی تھی۔ بس یہ وجہ بنی کہ آپ کی شہادت کی خبر نے مجھے اور آپ کے دوسرے سبھی دوستوں کو گہرے غم میں مبتلا کر دیا ہے۔ آپ کے بارے میں لکھنے کے لیے ہم اپنے آپ کو کمزور پاتے ہیں۔
یروشلم سے تعلق رکھنے والے صحافی اور شاعر محمد الکرد نےانسٹیٹیوٹ آف فلسطین سٹڈیز کے ایک بلاگ پر آپ کے بارے میں تحریر لکھ کر اپنے جذبات اور رائے کا اظہار کیا۔
لیکن محمد الکرد نے لکھا ہے ‘ میں سمجھتا ہوں جب آپ کے بارے میں کچھ لکھتے ہوئے یا آپ کی کہانی لکھنے لگتے ہیں تو ہمیں وہ سچائیاں رقم کرنے میں اپنی کمزوری اور آپ کے مقابلے میں لفظوں کے بھی چھوٹے پن کا احساس ہوتا ہے۔ کیونکہ آپ کی شہادت نے ہمیں صرف گہرے کرب سے دو چار نہیں کیا اس بات کا بھی احساس دیا ہے کہ جو ایک دبنگ زبان اور جرات مندانہ پیرایہ اظہار آپ کی بلند پایہ شخصیت کے شایان شان ہو سکتا ہے ہم مقبوضہ فلسطین کے رہنے والوں کے رہن سہن اور حالات و واقعات سے لگا نہیں کھاتا۔ تو کجا من کجا والا معاملہ ہے۔’
کسی کی سوگ زدہ یادوں کی بنیاد پر ایک بزبان انگریزی لکھنے والے فلسطینی کا مطلب یہ ہوا کہ وہ خود کو اذیت دینے کا مرتکب ہوا۔ آپ کو شہید کرنے کا باعث بننے والے میزائلوں پر لکھی تحریر ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ پہلے ہم خود کو ایک شہید پر لکھنے کے اہل بنائیں۔
میزائلوں کی زبان یہ بھی تقاضا کرتی ہے کہ ہم پہلے آپ کو جغرافیہ، جنس، مذہب، رنگ اور نسل کے پیرایوں سے ماورا دیکھیں اور آپ کو جنگجو شہیدوں سے بھی الگ پہچانیں۔
سیدھی بات یہ ہے کہ ہم نوآبادیاتی زبان کے بندھنوں میں موجود ہی نہیں ہیں۔ آپ کے اعلان مرگ سے پہلے ضروری ہے کہ آپ کی پہلی جگہ پر موجودگی کو تسلیم کیا جائے۔ یہ زبان ایک فلسطینی کے جنازے کو تحرک پیدا کرنے سے جوڑتی ہے۔ اس کی پیروی اور جگمگاہٹ کو اشیاء حتیٰ کہ کائنات سے ماورا بنا دیتی ہے۔
میں رفعت العزیز کو متعارف نہیں کرا سکتا اگر میں شجاعیہ کا تعارف نہ کراؤں، وہاں کے رہنے بسنے والوں کا تعارف نہ کراؤں اور اڑوس پڑوس کا تعارف نہ کراؤں کیوںکہ رفعت العزیز اور الشجاعیہ کا تعارف آپس میں گہری قربت اور مماثلت رکھتا ہے۔ اور کوئی بھی شخص شجاعیہ کو س وقت تک نہیں سمجھ سکتا جب تک وہ غزہ کی پٹی کو نہ سمجھتا ہو۔ اور کوئی غزہ کو اس وقت تک نہیں سمجھ سکتا جب تک وہ فلسطینیوں پر مسلط کردہ نوآبادیاتی شکنجے، صیہونی قبضے اور یوم نکبہ کو نہ سمجھتا ہو۔
لہذا جب ہم کسی کا سوگ منانے یا ماتم کرنے کی بات کرتے ہیں تو ہم ایک مؤرخ کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔ ایک کارکن بن جاتے ہیں اور ایک تجزیہ کار بن جاتے ہیں۔ اس لبادے کے باعث ہم اپنے ہیرایہ اظہار کے لیے بین الاقوامی معاہدوں کا حوالہ دیتے ہیں، قوانین کا ذکر کرتے ہیں اور اعداد و شمار کا سہارا لیتے ہیں۔ ہم پھر ان چیزوں کو اپنے ائہاریہ پر پھیلا دیتے ہیں اور آپ کی کامیابیوں کا تذکرہ کرتے ہیں اور ان کی یادداشتوں کا سہارا لیتے ہیں جن سے آپ محبت کرتے تھے۔ آپ کی زندگی کے ان پر مزاح لمحات کو تحریر میں لاتے ہیں اور اپنے خطوط کو اپ کی اہلیہ اور بچوں کے لیے بھجوا دیتے ہیں۔
رفعت العریر غزہ کی پٹی کے رہنے والے لکھاری، شاعر، پرجوش اور متحرک ماہر تعلیم تھے۔ انہوں نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں طلبہ کو لٹریچر اور تخلیقی تحریروں کے موضوعات پر تعلیم دی۔ وہ (We Are Not Numbers) نامی تنظیم کے شریک بانی تھے۔ جو تجربہ کار مصنفوں اور قلم کاروں کی نوجوان مصنفین اور لکھنے والوں کا آپس میں تطابق پیدا کرنے والا ادارہ تھا۔ اور داستان گوئی کی اثر پذیری کو فروغ دیتا تھا تاکہ فلسطینی مزاحمت کو تقویت دے سکے۔
رفعت العریر کو 6 دسمبر 2023 کو اسرائیل نے بمباری کر کے شمالی غزہ میں شہید کر دیا تھا۔ اسی بمباری میں ان کے ساتھ ان کے بھائی، بھائی کا بیٹا، بہن اور بہن کے تین بچے بھی شہید ہوگئے تھے۔ ‘یورو میڈ مانیٹر’ نامی تنظیم کا کہنا ہے کہ رفعت العریر کو اسرائیلی فوج نے ٹارگٹ کر کے بمباری کا نشانہ بنایا اور اس سے پہلے انہیں فون پر ایسی دھمکیاں بھی دی جاتی رہی تھیں۔