اقوام متحدہ نےجمعے کو کہا ہے کہ غزہ میں تین ماہ قبل شروع ہونے والے اسرائیلی حملوں کے بعد سےاب تک ہزاروں بچے ایسے حالات میں پیدا ہوئے ہیں جو ’ناقابل یقین‘ ہیں۔
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یونیسیف کی ترجمان ٹیس انگرام نے غزہ کی پٹی کے حالیہدورے کے بعد بتایا کہ مائیں خون بہنے کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہی ہیں۔ نرس کوبچوں کی جان بچانے کے لیے چھ مردہ خواتین کا ہنگامی طور پر بڑا آپریشن کرنا پڑا۔
اقوام متحدہ کےادارہ برائے اطفال یونیسیف کے مطابق اسرائیلی جارحیت کے آغاز کے بعد سے اب تک تقریباً20 ہزار بچے پیدا ہو چکے ہیں۔
انگرام نے عمانسے ویڈیو لنک کے ذریعے جنیوا میں صحافیوں کو بتایا: ’اس ہولناک جارحیت کے دوران ہر10 منٹ میں ایک بچہ دنیا میں آ رہا ہے۔ ماں بننا خوشی کا وقت ہوتا ہے لیکن غزہ میںپیدا ہونا والا بچہ جہنم میں آتا ہے۔‘
انہوں نے اس ضمنمیں فوری بین الاقوامی سطح پر اقدام پر زور دیا ہے۔
انہوں نے کہا:’نوزائیدہ بچے تکلیف میں ہیں۔ مائیں خون بہنے سے موت کے منہ میں جا رہی ہیں۔ ہم سبکو رات کو نیند نہیں آنی چاہیے۔‘
غزہ میں وزارتصحت کے مطابق اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اب تک 24 ہزار 762 فلسطینی شہریوں کیجان جا چکی ہے جن میں تقریباً 70 خواتین، بچے اور جوان شامل ہیں۔
انگرام کا کہناتھا کہ برے حالات سے دوچار خواتین کے ساتھ ان کی ملاقات ’دل شکن‘ تھی۔
مشعال نامی خاتوناس وقت حاملہ تھیں جب ان کا گھر تباہ ہو گیا اور ان کے شوہر کئی دنوں تک ملبے تلےدبے رہے۔ بعد میں ان کا بچہ رحم میں بے حس وحرکت ہو گیا۔
انگرام کا کہناہے کہ ’اب تقریباً ایک ماہ بعد انہیں یقین ہے کہ بچہ مر چکا ہو گا۔‘ تاہم انہوں نےمزید کہا کہ مذکورہ خاتون اب بھی طبی امداد کا انتظار کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہمشعال نے ان سے کہا تھا کہ بہتر ہے کہ ’اس ڈراؤنے خواب میں کوئی بچہ پیدا نہ ہو۔‘
انگرام نے وبدانامی ایک نرس کی کہانی بھی سنائی جنہوں نے انہیں بتایا کہ انہوں نے گذشتہ آٹھ ہفتےمیں چھ مردہ خواتین کا ہنگامی طور پر بڑا آپریشن کیا۔
انگرام نے کہا کہماؤں کو بچے کی پیدائش سے پہلے، دوران اور بعد میں مناسب طبی دیکھ بھال، غذائیتاور تحفظ تک رسائی میں ناقابل تصور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
غزہ کی پٹی میںحاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں کی صورت حال ناقابل یقین ہے۔ اس صورت حال میں فوریاقدامات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہاس وقت غزہ میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح نامعلوم ہے۔
تاہم انہوں نے مزیدکہا: ’یہ کہنا درست ہے کہ بچے اب زمین پر موجود انسانی بحران کے سمیت بموں اور گولیوںکی وجہ سے مر رہے ہیں۔‘
انگرام نے کہا کہرفح میں اماراتی ہسپتال اب غزہ کی حاملہ خواتین کی بڑی اکثریت کی دیکھ بھال کر رہاہے۔
انہوں نے کہاکہ’خواتین کی زیادہ تعداد اور محدود وسائل کے ساتھ مشکلات کا سامنا کرتے عملے کوآپریشن کے بعد تین گھنٹے کے اندر ماؤں کو فارغ کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
’ان حالات نے ماؤں کو اسقاط حمل، مردہ بچوں کی پیدائش، قبل از وقتزچگی، زچگی کے دوران اموات اور جذباتی صدمے سے دوچار کر دیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہبہت سی حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین اور نوزائیدہ بچے ’غیر انسانی‘ حالات میںرہ رہے ہیں جن میں عارضی پناہ گاہیں بھی شامل ہیں جہاں غذا کی قلت ہے اور پینے کےلیے صاف پانی میسر نہیں۔
انہوں نے خبردارکیا کہ ان حالات کی وجہ سے ’دو سال سے کم عمر کے لگ بھگ ایک لاکھ 35 ہزار بچوں کوشدید غذائی قلت کا خطرہ لاحق ہے۔‘
انہوں نے کہا کہانسانیت ان حالات کو مزید جاری رہنےکی اجازت نہیں دے سکتی۔ ماؤں اور نوزائیدہ بچوںکو انسانی بنیادوں پر فائر بندی کی ضرورت ہے۔