غزہ پر لگ بھگ تین ماہ سے جاری جنگ میں اسرائیل کو عسکری اور معاشی طور پر قابل ذکر نقصان ہو چکا ہے اور اب خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جنگ کے سبب معذور ہونے والے اسرائیلی فوجیوں کی تعداد 12 ہزار تک ہو سکتی ہے۔
یہ تخمینہ عسکری امور کے نامہ نگار یوسی یہوشوا نے لگایا جو اسرائیل میں یدیوت اہرونوٹ اخبار سے وابستہ ہیں۔
ان کے جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیلی فوج نے اب تک 2300 فوجیوں کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے لیکن 24 گھنٹے فیلڈ سے وابستہ افراد جیسے کہ ہسپتال کا عملہ، بحالی ڈویژن کے حکام اور اسرائیل ڈیفنس فورس (آئی ڈی ایف) کے ڈس ایبلڈ پیپلز آرگنائزیشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اصل اعداد و شمار اس سے زیادہ ہیں۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان نے جمعرات کو مزید پانچ فوجیوں کے شدید زخمی ہونے کی تصدیق کی تھی۔ اسرائیل عموماً اس طرح کے واقعات کی تفصیل بتانے سے گریز کرتا ہے اور انتہائی انتہائی مختصر بیان ہی پر اکتفا کرتا ہے۔
مثال کے طور پر وزارت دفاع نے ماضی میں کی گئی عسکری کارروائیوں اور جنگوں کے رجحانات کا جائزہ لینے کے لیے ایک بیرونی کمپنی کی خدمات حاصل کیں تاکہ 2024 میں آئی ڈی ایف کے بحالی ڈویژن میں آنے والے معذور فوجیوں کی درست تعداد کا اندازہ لگایا جا سکے۔
اخبار یدیوت اہرونوٹ کے مطابق ان کے عسکری امور کے نامہ نگار کی طرف سے کی گئی پیش گوئی حیران کن ہے کہ ممکنہ طور پر ساڑھے 12 ہزار اسرائیلی فوجی معذور ہو چکے ہیں۔
لیکن اخبار کے مطابق یہ انتہائی محتاط تخمینہ ہے اور امکان ہے کہ غزہ پر جاری جنگ میں معذور اسرائیلی فوجیوں کی تعداد 20 ہزار تک ہو سکتی ہے۔
اخبار کے مطابق بحالی کا یہ ادارہ فی الحال مجموعی طور پر 60 ہزار معذور افراد کا علاج کر رہا ہے جبکہ 2023 میں پانچ ہزار سے زیادہ نئے معذور فوجیوں کو بحالی ڈویژن میں شامل کیا گیا تھا۔
خاص طور پر سات اکتوبر سے اب تک بحالی ڈویژن میں 3400 نئے معذور افراد کا اندارج ہوا ہے لیکن اس میں وہ شہری شامل نہیں ہیں جو مغرب یا ملک کے شمال میں کی گئی کارروائیوں کے دوران زخمی ہوئے۔
پوری قوت کے استعمال کے باجود اسرائیل اب تک اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکا ہے اور گذشتہ تین ماہ میں وہ کئی بار اپنی جنگی حکمت عملی بدلتا رہا ہے۔
پہلے فضائی حملے اور اس کے بعد 27 اکتوبر سے زمینی کارروائیاں شروع کی گئی جس میں انہیں حماس کی طرف سے گھات لگا کر کیے گئے مہلک حملوں کا سامنا رہا۔
رواں ہفتے یہ خبریں آئیں کہ اسرائیل نے غزہ سے بڑی تعداد میں اپنے فوجیوں کو نکال لیا ہے اور اب وہ میزائل اور فضائی حملوں میں تیزی لانے کا ارادہ رکھتا ہے۔