اسلامی تحریک مزاحمت[حماس] کے پولیٹیکل بیورو کے نائب سربراہ صالح العاروری کی والدہ نے کہا ہے کہ انکے بیٹے کی شہادت "وطن کا فدیہ” ہے۔ جب کہ ان کی بہن نے کہا کہ وہ ہرسجدے میں شہادت کی دعا مانگتے اور اس کی تمنا کرتے تھے۔
اس کی والدہ جورام اللہ کے شمال میں واقع گاؤں العارورہ میں ایک معمولی گھر میں رہتی ہیں نے مزیدکہا کہ اس نے اپنے بیٹے کو 20 سال سے نہیں دیکھا۔ جو اس کی زندگی کے بہت سے مراحلاور قابض دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے اس کیجدوجہد کے سفر کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ظلم و ستم اور قید و بند کی صعوبتوں کی طرفاشارہ کرتی ہے کیونکہ اس نے بیٹے کو جیل سے رہائی کے بعد جلا وطن کردیا گیا تھا۔
اپنی طرف سے العاروریکی بہن نے کہا کہ خدا نے ان کی شہادت سے انہیں عزت بخشی، جو کہ "فلسطین اورعرب قوم کے لیے باعث فخر ہے”۔
انہوں نے اس باتپر زور دیا کہ تمام نوجوان اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں، "فلسطین میں ہر بچہایک رہ نما ہے۔ "
ان کی ہمشیرہ نے مزید کہا کہ ان کی آخری ملاقات گزشتہ سال ہوئیتھی جب وہ حج کے دوران ان سے ملی تھی۔ اس نے اپنے بھائی اور اس کے مقصد پر اس کے یقیناور خدا پر اس کے بھروسے کی تعریف کی تھی۔ وہ شہادت کی تمنا اور سجدہ کرتے ہوئےاسے تلاش کر رہے تھے۔ اس نے اسے مسجد اقصیٰ اور فلسطین کے لیے اپنی جان کی قربانیدی۔
شہید صالح العاروریکے بھائی اسامہ العاروری نے کہا کہ ہم اس وقت سوگ میں ہیں مگر سچ ہے یہ شیخ صالحنے وہ شہادت حاصل کی ہے جس کی انہیں تمنا تھی۔
ڈاکٹرمصطفیٰالبرغوثی نے شہید صالح العاروری اوران کے خاندان کی والدہ کی گفتگو پر تبصرہ کرتےہوئے کہا کہ ہم اس خاندان کے سامنے جھکتے ہیں جو نے نہ رویا اور نہ ماتم کیا اورکہا کہ ہمیں فخر اور مبارکباد ہے۔ دشمن فلسطینیوں کی جدوجہد کے جذبے کو نہ سمجھسکے اور نہ ہی سمجھ سکے گا۔
دوسری جانب سوشلمیڈیا پلیٹ فارمز نے العاروری کے قتل کے واقعے کے حوالے سے بحث جاری ہے۔ سوشلمیڈیا پر صالح العاروری کے ویڈیو کلپس نشر کیے جا رہے ہیں۔
الشیخ صالح العاروری کومنگل کی شام بیروت میں ان کے چھ ساتھیوں سمیت بمباریکرکےشہید کردیا گیا تھا۔