اسلامی تحریک مزاحمت[حماس] نے غاصب صہیونی ریاست کو تسلیمکرنے کے حوالے سے حماس کے بیرون ملک امور کے رہ نما خالد مشعل کے ایک بیان کی سختیسے تردید کی ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ خالد مشعل کے بیان کو غلط انداز میں اورتوڑمروڑ کر پیش کیا گیا۔
حماس کی طرف یہ وضاحتآج خالد مشعل کے فرانسیسی اخبار لی فیگارو میں شائع ہونے والے صحافی جارجمالبرونوٹ کے ساتھ انٹرویو اور صیہونی ریاست کو تسلیم کرنے کے معاملے سے متعلق انکے سوال کے جواب میں سامنے آئی ہے۔
حماس نے وضاحت کیکہ مذکورہ صحافی نے برادرم خالد مشعل کے واضح اور مخصوص بیانات کے علاوہ مضمون میںاپنی ذاتی آراء اور نجی تبصروں کا ایک مجموعہ بھی شامل کیا ہے۔ خالد مشعل نے واضحطور پر کہا ہے کہ حماس اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گی مگر فرانسیسی صحافی نے پیشہوارانہ اصولوں کوبالائے طاق رکھتے ہوئے ان کے نام من گھڑت بیان شائع کردیا۔
خیال رہے کہ خالدمشعل کے نام منسوب بیان میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ پہلےفلسطینی ریاست قائم ہوجائے اس کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کریں گے۔
بیان میں خالدمشعل کے بیان کردہ اصل متن کے مواد کا حوالہ دیا گیا، جس میں انہوں نے کہا کہہمارا موقف واضح ہے کہ قابض ریاست کی قانونی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ ہم نےاوسلو معاہدے سے سبق لیا جب 1993 میں قیادت PLO نے اسرائیل کو تسلیم کیا لیکن بدلے میں اسے کچھ نہیں دیا۔
مشعل نے انٹرویومیں کہا کہ 2017 میں حماس کی سیاسی دستاویز نے 1967 ء کی سرحدوں پر یروشلم کے ساتھفلسطینی ریاست کے قیام اور اسرائیل کو تسلیم کیے بغیر حق واپسی کے حوالے سے فلسطینیدھڑوں کے ساتھ قومی اتفاق رائے طے پایا تھا مگر اس میں بھی صہیونی ریاست کے ناپاکوجود کو تسلیم کرنے کی بات نہیں کی گئی تھی۔
ایک اور بیان میںحماس نے کہا کہ فرانسیسی اخبار لی فیگارو میں صحافی جارج مالبرونوٹ کی طرف سے شائعہونے والی خبروں کے بارے میں جو مواد شامل ہوتا ہے وہ زیادہ تر من گھڑت اور فرضیکہانیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس نے طوفان الاقصیٰ کے بارے میں بھی اپنی طرف سے منگھڑت باتیں لکھیں۔