غزہ کے پانچ لاکھسے زائد افراد یعنی ایک چوتھائی آبادی فاقوں کا شکار ہے۔ اس امر کا اظہار اقواممتحدہ اور دیگر ایجنسیوں کی جانب سے جمعرات کو ایک نئی رپورٹ پیش کردہ رپورٹ میں کیاگیا ہے جس میں غزہ میں پیدا شدہ انسانی بحران کو اجاگر کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں پیش کیےگئے اعداد وشمار کے مطابق وہاں کے لوگوں کی بھوک کی صورتحال حالیہ برسوں میںافغانستان اور یمن کے تقریباً قحط کی صورتحال تک سے بدتر ہو چکی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیاہے کہ سات اکتوبر کو جب سے اسرائیل نے حماس کے حملے کے جواب میں اپنی فضائی اور زمینیکارروائی شروع کی ہے وہاں خوراک کی انتہائی نا کافی مقدار کی ترسیل ہو سکی ہے جس کیوجہ سے اس وقت وہاں کی ایک چوتھائی آبادی فاقہ کشی کا سامنا کر رہی ہے۔ اور یہصورت حال دن بہ دن مزید ابتر ہوتی جا رہی ہے۔
اقوام متحدہ کےعالمی ادارہ خوراک کے چیف اکانومسٹ عارف حسین نے کہا،”اس سے زیادہ بدتر صورت حالاور کیا ہوسکتی ہے، غزہ میں جس پیمانے پر یہ ہورہا ہے اور جتنی تیزی سے ہورہا ہے،میں نے ایسا کبھی نہیں دیکھا۔‘‘
انہوں نے کہا ہےکہ یہ ایسی صورتحال ہے جس میں غزہ میں تقریباً ہر شخص بھوکا ہے۔ انہوں نے خبردار کیاہے کہ اگر اسرائیل اور حماس کے درمیان اسی سطح پر جنگ جاری رہی اور خوراک کی فراہمیبحال نہ ہوئی تو وہاں کی آبادی کو اگلے چھ ماہ میں ایک مکمل قحط کا سامنا ہو سکتاہے۔
اقوام متحدہ کےعالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق غزہ کے انیس لاکھ رہائشی یعنی اسی فیصدسے زیادہ آبادی اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو چکی ہے۔ اور اس وقت دس لاکھ سےزائد لوگ اقوام متحدہ کی پناہ گاہوں میں کسمپرسی کی حالت میں رہ رہے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کےامدادی کارکنوں نے جمعرات کو شمالی غزہ کے دو ہسپتالوں کے دورے کے بعد ”ناقابلبرداشت” مناظر کی اطلاع دی۔
انہوں نے بتایاکہ بغیر کسی علاج کے بستروں پر پڑے زخمی پانی پانی پکار رہے تھے، چند ایک باقی رہجانے والے ڈاکٹروں اور نرسوں کے پاس کوئی طبی سامان نہیں تھا اور لاشیں صحن میںقطاروں میں پڑی تھیں۔
خیال رہے کہ جنگشروع ہونے کے بعد اسرائیل نے غزہ کے علاقے میں خوراک، پانی، دوائیں اور ایندھن کیتمام ترسیلات روک دی تھیں۔ امریکہ کے دباؤ کے بعد اس نے مصر کے راستے جزوی امدادپہنچانے کی اجازت دے دی۔ تاہم اقو ام متحدہ کی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ غزہ میںخوراک کی ضرورت کا صرف دس فیصد ہی پہنچ پا رہا ہے۔