امریکی اخبار نیویارکٹائمز نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیلی قابض ریاست نے معمول کے مطابق اپنے سب سے بڑےاور تباہ کن بموں میں سے ایک کو جنوبی غزہ کی پٹی کے "محفوظ علاقوں” میںاستعمال کیا۔
متعدد ماہرین کیجانب سے غزہ پر جنگ کو تاریخ کی سب سے زیادہ پرتشدد جنگ قرار دینے کے بعد سیٹلائٹکی تصاویر اور محصور اورتباہ شدہ پٹی میں موجود گڑھوں کے سائز سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل نے 2000 پاؤنڈوزنی بڑے بموں کا استعمال کیا ہے۔
’نیویارک ٹائمز‘کے مطابق بصری شواہد کے تجزیے کے مطابق 7 اکتوبر کو شروع ہونے والی جنگ کے پہلے چھہفتوں کے دوران اسرائیل نے معمول کے مطابق اپنے سب سے بڑے اور تباہ کن بموں میں سےایک ایسے علاقوں میں استعمال کیا جواسے شہریوں کے لیے محفوظ زون قرار دیا گیا تھا۔
اگرچہ بہت سیمغربی فوجیں اس سائز کے بم استعمال کرتی ہیں۔ بہت سے جنگی سازوسامان کے ماہرین نےاس بات کی تصدیق کی ہے کہ مثال کے طور پر امریکی افواج اب انہیں گنجان آباد علاقوںمیں نہیں گراتی ہیں۔
208 گہرے گڑھے
جنوبی غزہ میں سیٹلائٹامیجز کے سروے اور مصنوعی ذہانت کے پروگرام نے بموں کے نتیجے میں بننے والے گڑھوںکی جسامت کو ظاہر کیا، کیونکہ وہ تقریباً 40 فٹ یا اس سے زیادہ چوڑے تھے۔
جبکہ ماہرین نےوضاحت کی کہ صرف 2000 پاؤنڈ وزنی بم غزہ کی ہلکی ریتلی مٹی میں اس سائز کے سوراخچھوڑ دیتے ہیں۔
اس کے علاوہ سیٹلائٹامیجز اور ڈرون فوٹیج سے جو انکشاف ہوا ہے غزہ میں اب تک208 گڑھے موجود تھے۔
لیکن امکان ہے کہسیٹلائٹ کے محدود کام کی وجہ سے دوسری جگہوں پر بہت سے گڑھے ہیں جن کی تصاویر نہیںلی جا سکیں۔
شہریوں کو خطرہ
ان نتائج سے ثابتہوتا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے استعمال کیے جانے والے بڑے بم جنوبی غزہ میں حفاظتکے متلاشی شہریوں کے لیے بڑے پیمانے پر خطرہ ہیں۔
دوسری جانب اسرائیلیفوج کے ترجمان نے بموں کے اس معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’’ان کے ملک کی ترجیححماس کو تباہ کرنا ہے‘‘۔
انہوں نے مزیدکہا کہ اسرائیلی فوج "شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کوکم کرنے کے لیے ہر ممکناحتیاط برت رہی ہے”۔
یاد رہے کہ امریکیحکام نے پہلے بھی شہری ہلاکتوں کو کم کرنے کے لیے زیادہ کوششیں کرنے کی ضرورت پرزور دیا تھا۔
یہ بات قابل ذکرہے کہ پینٹاگان نے حال ہی میں اسرائیلی فوج کو چھوٹے بموں کی کھیپ میں اضافہ کیاہے جنہیں وہ غزہ جیسے شہری ماحول کے لیے زیادہ موزوں سمجھتا ہے۔