فلسطینی امور اسیران نے اتوار کے روزاطلاع دی ہے کہ غزہ سے حراست میں لی گئی فلسطینی خواتین کو بدنام زمانہ دامون جیلمیں رکھا گیا ہے جہاں انہیں غیر انسانی سلوک کا سامنا ہے۔ دوران حراست انہیںجسمانی، نفسیاتی اور دیگر نوعیت کی کڑی سزائیں دی جا رہی ہیں۔
ان خواتین کو اسرائیلی قابض فوج کےدرندوں نے غزہکی پٹی میں گھس کر وہاں پر وحشیانہ کارروائیوں کے دوران حراست میں لیا تھا۔
اسیران کمیشن نےاپنے وکیل کے توسط سے اطلاع دی کہ قابض افواج نے مغربی کنارے، یروشلم، 1948 کےعلاقوں اور غزہ میں ہماری خواتین قیدیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر گرفتاری کی مہمچلائی اور ان سب کو گرفتاری سے لے کر جیل لے جانے تک تشدد اور بدسلوکی کا نشانہبنایا گیا۔ جیل میں داخل ہونے کے بعد بھی انہیں مارا پیٹا جاتا ہے، ان کی نیمبرہنہ تلاشی لی جاتی ہے، غلیظ گالیاں دی جاتی ہیں اور انہیں بنیادی حقوق سے محرومرکھا جاتا ہے۔
ایک خاتون نےبتایا کہ غزہ سے اغوا کی گئی ایک 80سالہ بوڑھی کو خون میں لت پت لایا گیا جو بیساکھی پر چل کر جیل میں لائی گئی۔ لگتاہے کہ وہ الزائمر کی بیماری کا شکار تھی اور یہ اندازہ نہیں ہوسکا کہ اسے کیوںپکڑا گیا ہے۔
کمیشن نے بتایا کہقابض فوج نے قیدیوں کو انتہائی پتلےکپڑے پہنا رکھے تھے۔ انہیں مسلسل گالیاں دیجاتیں اور دھکے دیے جاتے۔ جیل میں لائے جانے سے قبل خواتین کو جسمانی تشدد کانشانہ بنایا گیا تھا اور انہیں بارش میں رکھا گیا تھا۔ دامون جیل لائی گئی تقریباتمام خواتین انتہائی تشویشناک حالت میں ہسپتال پہنچائی گئیں، ان کے تن بدن پر کپڑےتک نہیں تھےاور انہیں شدید تشد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
محکمہ اموراسیران نے ذکر کیا کہ غزہ کے قیدیوں میں سے ایک ایک ماں نے کہا کہ "جب اسےگرفتار کیا گیا تو اس کے ساتھ اس کے چار چھوٹے بچے بھی تھے۔ وہ نہیں جانتی تھی کہان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔ اس کے قریب غزہ کا ایک شخص تھا۔ اسے اپنے بچے اسے دیے،یہ نہ جانے کہ وہ کون ہے بچوں کو اس کے حوالے کردیا مگر معلوم نہیں کہ اس کے بچوںکے ساتھ کیا ہوا ہوگا۔
کمیشن نے اس باتکی تصدیق کی کہ مذکورہ شہادتیں اس بات کا ایک بہت ہی چھوٹا حصہ ظاہر کرتی ہیں جوہم حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اسرائیلی فوج نے غزہ سے سیکڑوں فلسطینیوں کو گرفتارکیا ہے جن میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔