اقوام متحدہ کیسلامتی کونسل دوسری بار غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی قرارداد کا مسودہمنظور کرنے میں ناکام رہی، جب کہ امریکا نے اپنا ویٹو پاور استعمال کیا جس کےنتیجے میں قرارداد ویٹو ہوگئی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریس کےانتباہ کے باوجود قرارداد ناکام رہی۔
اس کے تازہ ترینورژن میں قرارداد کے مسودے میں غزہ میں "انسانی وجوہات کی بنا پر فوری جنگبندی” کا مطالبہ کیا گیا تھا جس میں "غزہ کی پٹی میں تباہ کن انسانیصورتحال” کے بارے میں خبردار کیا گیا ہے۔
مختصر متن میں”شہریوں کے تحفظ”، "تمام یرغمالیوں کی فوری اور غیر مشروط رہائی”اور "انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی رسائی کو یقینی بنانے” کا بھیمطالبہ کیا گیا ہے۔
سلامتی کونسل میںووٹنگ سے چند گھنٹے قبل گوتیریس نے زور دے کر کہا تھا کہ غزہ کی پٹی کی 85 فیصدآبادی کم از کم ضروریات زندگی کے بغیر زند ہے اور اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہے۔اقوام متحدہ غزہ کے باشندوں کو امداد فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ لیکن غزہ میںانسانی امداد کے نظام کے مکمل طور پر تباہ ہونے کا خدشہ ہے، جس کے سنگین نتائجبرآمد ہوں گے۔
گوتیریس نے مزیدکہا کہ غزہ میں صحت کا نظام تباہ ہو رہا ہے جب کہ ضروریات میں اضافہ ہو رہا ہے۔غزہ کے لوگوں کے لیے خوراک ختم ہو رہی ہے اور ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق قحط کا شدیدخطرہ ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ضروری حالات کے مطابق غزہ میں انسانی امداد کی موثرترسیل اب موجود نہیں ہے۔
انہوں نے خدشہظاہر کیا غزہ میں ہونے والے واقعات سے امن عامہ مکمل طور پر تباہ ہو جائے گا، اوربڑے پیمانے پر مصر کی طرف نقل مکانی کے لیے دباؤ بڑھ جائے گا۔ غزہ میں اسرائیل کیطرف سے عائد پابندیاں اقوام متحدہ کے اداروں کے لیے آبادی کی ضروریات کو پورا کرنامشکل بنا رہی ہیں۔