اسرائیلی فوج نےغزہ کی پٹی میں تاریخی یادگار اور حضرت عمر فاروق کے دور میں تعمیر کی گئی تاریخیمسجد العمری الکبیر کو بمباری کرکے ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے۔
سات اکتوبر کےبعد غزہ کی پٹی میں مساجد کو شہید کرنے کی مجرمانہ مہم کے دوران اب تک ایک سو سےزائد مساجد کو شہید کیا جا چکا ہے۔
ان میں سے آخری صیہونینفرت اور وحشیانہ جارحیت تھی جو اس نے غزہ کی پٹی کے وسط میں واقع ایک نمایاں تاریخینشان عمری مسجد پر اپنے میزائلوں اور بمباری سے شروع کی تھی۔
چند سیکنڈز کیبمباری میں مسجد کو ملبے اور راکھ کاڈھیر بنا دیا گیا۔
سماجی کارکنوں نےسوشل میڈیا پر ایسی تصاویر پوسٹ کی ہیں جن میں تاریخی مسجد العمری کے کھنڈرات کودیکھا جا کستا ہے۔ یہ مسجد غزہ کی پٹی کی سب سے بڑی اور قدیم مسجد ہے مگر اب یہراکھ اور ملبے کا ڈھیر بن چکی ہے۔
غزہ شہر میں واقع”عظیم” عمری مسجد کو فلسطین کے اہم ترین اسلامی مقامات میں سے ایک سمجھاجاتا ہے۔ یہ غزہ کی پٹی کی پہلی سب سے بڑی اور قدیم ترین مسجد ہے اور اس کی تاریخ3000 سال سے زیادہ پرانی ہے۔
یہ مسجد غزہ شہرکے وسط میں درج محلے میں واقع ہے۔ یہ تاریخی قیصریہ بازار سے متصل ایک بہت بڑی عمارت ہے۔اس کا شمار فلسطین کے قدیمترین آثار قدیمہ کے مقامات میں ہوتا ہے۔
مسجد کا رقبہ تقریباً4100 مربع میٹر ہے، جب کہ اس کے صحن کا رقبہ 1190 مربع میٹر ہے۔ عمارت تقریباً38 سنگ مرمر کے کالموں پر مشتمل ہے۔
اس مسجد میں کافریونانیوں کے دور میں بتوں، سورج اور سیاروں کی پوجا کے لیے عبادت گاہ قرار دیاگیا۔ پھر رومی عیسائیوں کے دور میں اسے جلا دیا گیا اور اس کی باقیات کو ہٹا دیا گیا،بعد میں اسے مسلمانوں کے لیے مسجد میں تبدیل کر دیا گیا۔ اسے خلیفہ عمر بن الخطابکی نسبت سے مسجد العمری کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اسے "الکبیر” کا نامبھی دیا جاتا ہے کیونکہ یہ غزہ کی بڑی مسجد ہے۔
دوسری جانباسلامی تحریک مزاحمت [حماس] نے ایک بیان میں کہا ہے کہ قابض فوج کی بمباری اور عظیمعمری مسجد کی تباہی "ایک گھناؤنا اور وحشیانہ جرم ہے جو غزہ شہر میں ایک اہمتاریخی یادگار اور ایک مذہبی مقام کونشاہ بنا کر کیا گیا ہے‘‘۔