فلسطینی انسانیحقوق کے گروپوں نے ہفتے کے روز بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر کریم خانسے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا۔ فلسطینی اداروں نے ان پر فلسطینیوں اور اسرائیلیوںکے درمیان انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باہمی الزامات کے ساتھ غیر مساوی سلوککرنے کا الزام لگایا ہے۔
خان 7 اکتوبر کےحملے میں ہلاک ہونے والوں کے خاندانوں کی نمائندگی کرنے والے ایک گروپ کی درخواستکے بعد اسرائیل اور مقبوضہ مغربی کنارے کے دورے پر ہیں تاہم انہوں نے رام اللہ میںفلسطینی حکام سے ملاقات بھی کی۔
لیکن فلسطینیکارکنوں کا کہنا تھا کہ وہ کریم خان کا بائیکات کررہے ہیں۔ کیونکہ ان کے اس اعتراضپر کہ وہ فلسطینی اور اسرائیلی مسائل سے غیر مساوی سلوک کرتے ہیں۔
انسانی حقوق کےآزاد کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل عمار الدویک نے کہا کہ "فلسطینی انسانی حقوق کیتنظیموں کے طور پر ہم نے ان سے ملاقات نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے”۔
انہوں نے مزیدکہا کہ "میرے خیال میں جس طرح سے اس دورے کو سنبھالا گیا اس سے ظاہر ہوتا ہےکہ مسٹر خان اپنا کام آزادانہ اور پیشہ ورانہ انداز میں نہیں کر رہے ہیں”۔
دونوں فریق 7اکتوبر سے جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کا تبادلہ کر رہےہیں، جب حماس کے جنگجوؤں نے غزہ کی پٹی کے ارد گرد متعدد اسرائیلی رہائشی کمیونٹیزمیں دراندازی کرکے 1200 اسرائیلیوں کو ہلاک اور تقریباً 240 کو قیدی بنا لیا گیاتھا۔
حماس کے حملے کےجواب میں اسرائیل نے غزہ پر فضائی حملے شروع کیے جو کئی ہفتوں سے جاری ہیں، اس کےعلاوہ ٹینکوں اور فوجیوں کے ساتھ زمینی حملے بھی کیے جا رہے ہیں۔ اسرائیلی فوج کیوحشیانہ کارروائیوں میں اب تک 15 ہزار سے زائد غزہ کے شہری شہید ہوچکےہیں۔
کریم خان اسرائیلیقیدیوں کے اہل خانہ کی طرف سے دعوت نامہ موصول ہونے کے بعد اسرائیل کے دورے پر آئےجہاں وہ ان خاندان کے کچھ افراد اور ان کے وکلاء سے ملاقات کرنے والے ہیں۔
خان نے ہفتے کےروز رام اللہ میں فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات کی۔
محمود عباس نےمسٹر خان سے فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی طرف سے عام شہریوں بالخصوص بچوں، خواتیناور بوڑھوں کو نشانہ بنا کر کیے جانے والے "جنگی جرائم” کی تحقیقات اورقانونی چارہ جوئی کو تیز کرنے پر زور دیا۔
فلسطینی وزیراعظم محمد اشتیہ نے خان سے ملاقات کے دوران اس بات پر زور دیا کہ مسئلہ فلسطینعدالت اور بین الاقوامی قانون کے لیے ایک امتحان ہے۔
فلسطینی خبر رساںایجنسی نے رپورٹ کیا کہ اشتیہ نے غزہ اور مغربی کنارے میں ہونے والے واقعات کو”قتل عام ، اجتماعی سزا اور نسل کشی” قرار دیا۔