انسانی حقوق کیتنظیم ’یورو-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس آبزرویٹری‘ نے کہا کہ اسرائیلی قابض فوج نے گذشتہ سات اکتوبر کو غزہ کی پٹی پر اپنی خونریزجنگ کے آغاز کے بعد سے آبادی والے علاقوں میں بین الاقوامی سطح پر ممنوعہ سفیدفاسفورس پر مشتمل ایک ہزار سے زیادہ حملے کیے ہیں۔
انسانی حقوق کیتنظیم کا کہنا ہےکہ اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی میں جنگی جرائم کا ارتکاب کرتے ہوئےسفید فاسفورس سے تیار کردی بموں کو فلسطینی آبادی کو خوف زدہ کرنے اور انہیں علاقے چھوڑنے کے ساتھ ساتھ ان کینسل کشی کے لیے ایک مکروہ جنگی حربے اور جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔
جمعرات کو ایک بیانکے مطابق یورو میڈ نے اسرائیلی قابض فوج کے سفید فاسفورس کے اندھا دھند استعمال کو دستاویزیشکل دی، جو کہ ایک آگ لگانے والا مادہ ہے جو انسانی گوشت کو جلاتا ہے اور زندگیبھرتکالیف کا باعث بن سکتا ہے۔ غزہ شہر اور اس کے شمال میں آبادی والے علاقوں میںنسل کشی اور جبری نقل مکانی کے لیے اسے ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کررہاہے۔
انہوں نے نشاندہیکی کہ 15 نومبر بہ روز بدھ شام کو شمالی غزہ کی پٹی کے قصبے بیت لاہیہ کے ایک آبادیوالے چوک پر قابض فوج کی جانب سے سفید فاسفورس کے ساتھ 40 منٹ کے اندر 300 حملے کیےگئے۔
اس سے ایک راتپہلے غزہ شہر کے شمال میں الشیخ رضوان محلے کے ایک پرہجوم علاقے میں سفید فاسفورسکے گولوں کی ایک بڑی تعداد پھینکی۔
اس سے قبل غزہ کےمغرب میں واقع "الشاطی” پناہ گزین کیمپ اور غزہ کی پٹی کے شمال میں واقع”جبالیہ” قصبے اور کیمپ میں بھی وائٹ فاسفورس کا استعمال کیا گیا۔
فلسطینی باشندوںکا کہنا تھا کہ انہیں سفید فاسفورس سانس لینے کے نتیجے میں سانس کی شدید تکلیف اورکھانسی کا سامنا کرنا پڑا، ہوا میں پھیلنے والی انتہائی ناگوار بدبو اور گھنے سفیددھوئیں کی وجہ سے بینائی میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔
بیان میں وضاحت کیگئی ہے کہ سفید فاسفورس سے متاثر ہونے والے افراد کو سانس کی خرابی، اعضاء کی خرابی،اور دیگر سنگین، زندگی کو بدلنے والی چوٹوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جلن کا علاجکرنا انتہائی مشکل ہے اور اسے پانی سے بجھایا نہیں جا سکتا۔
یورو- میڈیٹیرینینآبزرویٹری نے کہا ہے کہ پرہجوم رہائشی علاقوں کو نشانہ بنانے والے سفید فاسفورساور اسموک بموں کے استعمال میں اضافہ جبری نقل مکانی اور نسلی تطہیر کے لیے ایکجنگی حربہ ہے جسے اسرائیل نے بڑے پیمانے پر غزہ کی پٹی پر استعمال کیا ہے۔