اسرائیل کی غزہ پر جنگ کے معاشی اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اور اسرائیل کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہےاسرائیل کے مرکزی بینک نے ابتدائی اندازوں کےحوالے سے کہا کہ جنگ کے سبب اسرائیلی معیشت کو یومیہ 26 کروڑ ڈالرز کانقصان ہو رہا ہے اور اس جنگ کی وجہ سے معیشت کو 50 ارب ڈالرز کا نقصان ہوسکتا ہے۔ماہرین سوال کر رہے ہیں کہ کیا اسرائیل کیمعیشت میں اتنا دم ہے کہ وہ اکیلے اس جنگ کے اخراجات کو برداشت کر سکے؟کیونکہ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو اور وزیر خزانہ بیزا لیلسماٹریش پر عوامی دباو بڑھ رہا ہے کہ وہ اسرائیل کے بجٹ پر نظر ثانی کریں۔
اسرائیل کی معیشت کو بڑا دھچکا
جنگ کے باعث اسرائیل کی کرنسی شیکل 2012 کے بعدکم ترین سطح پر آ چکی ہے۔ بینک آف اسرائیل کے مطابق جنگ کے باعث اسرائیلکی کرنسی شیکل مسلسل اپنی قدر کھو رہی ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے بلوم برگکا کہنا ہے کہ جنگ شروع ہونے کے بعد امریکی ڈالر کے مقابلے میں اسرائیلیکرنسی شیکل کی قدر میں 0.7 فیصد کمی ہوئی ہے۔ اسرائیل کے بانڈز اور سٹاکسمیں بھی کمی ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ سرمایہ کاروں کو خدشہ ہے کہ غزہ پر جاری جنگ علاقائی تنازعے کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔اسرائیل کی وزارت افرادی قوت کا کہنا ہے کہ غزہپر جنگ کی وجہ سے ورک فورس میں 20 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے، جنگ کے باعثاسرائیل کی درآمدات اور برآمدات متاثر ہو سکتی ہیں۔
اسرائیل کے جنگی بجٹ میں اضافہ
نیتن یاہو کی اتحادی حکومت کو رواں مالی سال کےبجٹ پر شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اسرائیل کی وزارت خزانہ نے بجٹ پر نظرثانی کی ترامیم پیش کی ہیں جنہیں وزیر اعظم نیتن یاہو نے منظور کرلیا ہے۔ترامیم کے تحت اسرائیل کے جنگی بجٹ میں اضافہکیا جا رہا ہے اور وزارتوں کے بجٹ میں کٹوتی کی جائے گی اور اتحادی فنڈ بھیکم کیا جائے گا۔ بائیں بازو کی جماعتوں کی طرف سے فنڈز میں کٹوتی کے فیصلے پر وزیر اعظم نیتن یاہو پر تنقید کی جا رہی ہے۔
اقتصادی امور کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہےکہ اسرائیل اپنے دفاع پر بھاری اخراجات کر رہا ہے اور بظاہر یوں لگتا ہے کہآئندہ بجٹ میں بھی دفاعی اخراجات کو ترجیح دی جائے گی اور کئی دہائیوں کےبعد اسرائیل اپنے دفاعی اخراجات کے لیے بھاری بجٹ مختص کرے گا۔ معاشی ماہر شاہد محمود کا کہنا ہے کہ ’اسرائیلکے دفاعی بجٹ میں اضافہ ہوگا اور نیتن یاہو کو اپنی اتحادی حکومت کو برقراررکھنے کے لیے سالانہ بجٹ پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔‘ اسرائیل کے با اثر ماہرین اقتصادیات نے حکومتکو لکھے گئے ایک خط میں خبردار کیا کہ حکومت اپنے بجٹ پر نظر ثانی کرے اوراس میں دفاع کو ترجیح دی جائے۔ 300 معاشی ماہرین نے رواں ہفتے نیتن یاہو کوکہا کہ وہ تمام غیر ضروری اخراجات میں کمی کریں، اخراجات پر نظر ثانی کریںکیونکہ جنگ کے بعد امداد اور بحالی کے لیے اربوں ڈالرز کی ضرورت پڑ سکتیہے۔

اسرائیل کی معیشت
اسرائیل کی معیشت کا حجم 530 ارب ڈالرز سے زائد ہے اور فی کس آمدن 58 ہزار 273 ڈالرز ہے۔مرکزی بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 200 ارب ڈالرز ہیں جو ایک سال کے درآمدی بل کے برابر ہے۔اسرائیل کی معیشت میں خدمات کے شعبے کا حصہ 80 فیصد اور صنعتی شعبے کا شیئر 17 فیصد سے زائد ہے۔غزہ پر جنگ کی وجہ سے اسرائیل کے زرمبادلہ کے ذخائر میں سات ارب ڈالرز کی کمی ہوئی ہے اور اب یہ 191.2 ارب ڈالرز تک پہنچ چکے ہیں۔
تجزیہ کاروں کی رائے
ماہر معاشی امور شفت اللہ کا کہنا ہے کہ’اسرائیل کی معیشت کو امریکہ اور یورپ کے ساتھ ملا کر دیکھیں۔ ہاں اگراسرائیل اکیلے یہ جنگ لڑ رہا ہوتا تو شاید اب تک اس کی معیشت تباہ ہو چکیہوتی۔‘عالمی ریٹنگ ایجنسی سٹینڈرڈ اینڈ پوور (ایس اینڈ پی) نے حالیہ جنگ کی وجہ سے اسرائیلی معیشت میں پانچ فیصد کمی کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ریٹنگ ایجنسی نے آئندہ مہینوں میں اسرائیلی معیشت میں سست روی کا بھی امکان ظاہر کیا ہے۔کاروباری سرگرمیوں میں کمی ہو رہی ہے ، صارفیناشیا کی خریداری کم کر رہے ہیں جس سے ڈیمانڈ میں کمی ہو رہی ہے اور سرمایہکاری کے ماحول پر غیر یقینی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔اسرائیل کا بجٹ خسارہ اکتوبر میں ملک کی مجموعی پیدوار’ جی ڈی پی‘ کا 2.6 فیصد تک پہنچ چکا ہے جو کہ ستمبر میں 1.5 فیصد تھا۔
خیال رہے کہ اسرائیل نے 2022 میں 35 سال بعد جیڈی پی کا 0.6 فیصد بجٹ سرپلس دیا تھا۔ جنگی اخراجات کے باعث اسرائیل کابجٹ خسارہ 2024 میں 3.5 فیصد تک پہنچ سکتا ہے ۔گذشتہ سال 2022 میں اسرائیل کی معاشی شرح نمو’جی ڈی پی‘ کا 6.5 فیصد تھی۔ ایس اینڈ پی کے مطابق رواں سال اسرائیل کی جیڈی پی 1.5 فیصد تک رہے گی جب کہ اگلے سال 2024 میں جی ڈی پی 5 فیصد تک پہنچسکتی ہے۔اسرائیل کے مرکزی بینک کے مطابق 2023 میںاسرائیل کی معاشی شرح نمو 2.3 فیصد تک رہ سکتی ہے جب کہ اگلے سال 2024 میںمعاشی شرح نمو 2.8 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔اس جنگ کی وجہ سے اسرائیل کے اسلحے کی برآمداتبری طرح متاثر ہوسکتی ہیں۔ اسرائیلی اسلحے کی برآمدات مجموعی برآمدات کاپانچ فیصد ہیں جبکہ طویل جنگ کی وجہ سے اسرائیل کی سیاحت بھی متاثر ہو سکتیہے کیوں کہ جنگ کے بعد بڑی فضائی کمپنیوں کی اسرائیل کے لیے پروازیں بھیمتاثر ہوئی ہیں۔جنگ کی وجہ سے اسرائیل کا قرض بلحاظ جی ڈی پی 60 فیصد تک پہنچ چکا ہے جو اگلے سال تک 55 فیصد تک رہنے کا اندازہ تھا۔مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک پر گہری نظر رکھنےوالے ماہر شفقت اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ امریکیاور یورپی یہودیوں کا بینکنگ، معیشت اور میڈیا پر پورا کنٹرول ہے، امریکیکانگریس میں بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی سینیٹر اسرائیل کی مخالفت کرے۔ماہر معیشت شاہد محمود نے کہا کہ جنگ کے باعثاسرائیل کے اسلحے کی فروخت، دفاعی برآمدات اور ہائی ٹیک شعبوں میں سرمایہکاری متاثر ہو سکتی ہے۔

جنگ کا خرچہ کون دے رہا ہے؟
مرکزی بینک نے اسرائیل کو جنگ کے لیے 45 اربڈالرز فراہم کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ امریکی کانگریس نے اسرائیل کو 14 اربڈالرز سے زائد کے امدادی پیکیج کی منظوری دی ہے۔امریکی کانگریس ریسرچ سروس کی رپورٹ کے مطابق رواں سال کے لیے اسرائیل کو فوج کے لیے 3.3 ارب ڈالرز مختص کیے ہیں۔ماہر معاشی امور شفت اللہ کا کہنا ہے کہاسرائیل کو جنگ میں جتنا مالی نقصان ہوتا ہے وہ امریکہ اور یورپ اس کی مددکرتے ہیں ’1948 سے آج تک لڑی جانیوالی تمام جنگیں اسرائیل نے امریکہ اوریورپ کے ساتھ مل کر لڑی ہیں ، اسرائیل نے آج تک کوئی جنگ اکیلے نہیں لڑی ،اسرائیل کی وار مشینری میں بھی اتنی طاقت نہیں کہ وہ اکیلے یہ جنگ لڑ سکے۔‘
اسرائیل کی فوجی طاقت
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار سٹریٹیجک سٹڈیز کیایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج میں ایک لاکھ 69 ہزار 500 اہلکار موجودہیں جب کہ چار لاکھ 65 ہزار افراد ریزرو فوج کا حصہ ہیں۔اسرائیل کی بری فوج کے پاس 2200 ٹینکس اور 530 آرٹلریز ہیں۔اسرائیل کے پاس جدید ترین موبائل ایئر ڈیفنس موجود ہے، جو چھوٹی رینج کے راکٹس کو پکڑنے اور تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اسرائیلی کی فضائیہ کے پاس 339 جنگی لڑاکاطیارے ہیں جن میں 196 ایف 16 ، 83 ایف 15 اور 30 ایف 35 لڑاکا طیارے بھیموجود ہیں۔ اسرائیل کے پاس پانچ جدید ترین سب میرینز بھی ہیں۔سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے دفاع کی مد میں 2023 میں 23.4 ارب ڈالرز خرچ کیے۔انڈیا اسرائیلی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ گذشتہ چار برسوں میں انڈیا نے اسرائیل سے ایک ارب 19 کروڑ ڈالرز کا اسلحہ خریدا۔انڈیاکے بعد آذربائیجان، فلپائن اور امریکہ اسرائیلی اسلحے کے بڑے خریدار ہیں۔اسرائیل امریکہ اور جرمنی سے اسلحے کی بڑی خریداری کرتا ہے۔
بشکریہ انڈیپنڈنٹ اردو