چهارشنبه 30/آوریل/2025

اسرائیل 75سال سے فلسطینیوں پر وحشیانہ مظالم ڈھا رہا ہے:ملکہ رانیا

بدھ 25-اکتوبر-2023

 

اردن کی ملکہ رانیہالعبداللہ نے غزہ کی پٹی پر جاری اسرائیلی جنگ کے تناظر میں دنیا پر "کھلمکھلا دہرے معیار” اور "بہری خاموشی” پر عرب دنیا کے صدمے اور مایوسیکا اظہار کیا ہے۔

 

ان کا کہنا ہے کہغزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں جو کچھ ہو رہا ہے وہ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ فلسطینیپچھلے 75 برسوں میںاسرائیلی ریاست کے وحشیانہ مظالم کی چکی میں پس رہے ہیں۔

 

انہوں نے منگل کیشام CNN پر صحافی کرسٹیئن امان پور کے ساتھ ایک براہ راست انٹرویو میں کہاکہ مغربی میڈیا میں مروجہ بیانیہ کے باوجود حقیقت اس کے برعکس کیونکہ فلسطینیوں کےقتل عام کا سلسلہ سات اکتوبر سے نہیں بلکہ پچھہتر سال سے جاری ہے۔

 

 

انہوں نے کہا کہ زیادہتر نیٹ ورک اس کہانی کو "اسرائیل جنگ میں ہے” کے عنوان سے کور کرتے ہیں،لیکن دیوار فاصل کی دوسری طرف اور خاردار تاروں کے دوسری طرف فلسطینیوں کے لیے جنگکبھی کیں نہیں بتائی جاتی۔  یہ 75 سال پرانیکہانی ہے، فلسطینی عوام کی موت اور بے گھر ہونے کی کہانی آج کی نہیں بہت پرانیہے۔

 

انہوں نے نشاندہیکی کہ  اسرائیلی بیانیے میں جوہری ہتھیاروںسے لیس علاقائی سپر پاور (اسرائیل) کو اجاگر کرنے کو نظر انداز کیا گیا ہے جو فلسطینیوںکے خلاف روزانہ کے جرائم کا مرتکب ہوتا ہے۔

 

انہوں نے خبردارکیا کہ فلسطینی ماؤں کو اپنے بچوں کے نام اپنے ہاتھوں پر لکھنے پر مجبور کیا گیاہے کیونکہ ان پر بمباری سے موت کے گھاٹ اتر جانے اور ان کی لاشوں کے چھیتڑے اڑادیے جاتے ہیں۔

 

انہوں نے زور دےکر کہا کہ جنگ کے قوانین کا اطلاق ہر ایک پر ہونا چاہیے۔ اسرائیل اپنے دفاع کی آڑمیں وحشیانہ کارروائیاں کرتا ہے اور مغرب اس کے جرائم پر خاموش ہے۔

 

ان کا کہنا تھاکہ ’’اب تک 6 ہزار شہری شہید ہوچکے ہیں ان میں 2400 بچے ہیں۔ اس قتل عام کو اپنادفاع کیسے سمجھا جاسکتا ہے؟‘‘ ہم بڑے پیمانے پر قتل عام کو گائیڈد میزائلوں کااستعمال کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ پچھلے دو ہفتوں کے دوران ہم نے غزہ پر اندھا دھندبمباری دیکھی ہے۔ پورے خاندانوں کو تباہ کر دیا گیا، رہائشی محلوں کو نیست ونابود کردیا گیا، اور ہسپتالوں، سکولوں، گرجا گھروں، مساجد، طبی عملے، صحافیوں اور اقواممتحدہ کے امدادی کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس کو اپنا دفاع کیسے سمجھا جاتاہے؟!”

 

انہوں نے کہا کہجدید تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ہم اس طرح کے انسانی مصائب کا مشاہدہ کر رہے ہیںاور دنیا جنگ بندی کا مطالبہ نہیں کر رہی ہے۔

 

مختصر لنک:

کاپی