امریکی اخبار ’نیویارکٹائمز‘ نے کہا ہے کہ "حساس قرار دی گئی ملاقاتوں کے دوران امریکی حکام نےاچانک طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد اسرائیلی رہ نماؤں کی کمزوری کو محسوس کیا۔”
انہوں نے مزیدکہا کہ "اہلکاروں نے محسوس کیا کہ اسرائیلیوں کے لیے دو محاذوں پر لڑنا مشکلہے۔ انہیں مشورہ دیا کہ وہ کسی بھی ایسی کارروائی سے گریز کریں جو حزب اللہ کو جنگمیں گھسیٹ سکے۔”
گھوسٹ جنگ کی توسیع
اخبار نے تصدیق کیکہ "خطے کے تقریباً تمام حصوں میں ہونے والی متعدد ملاقاتوں میں امریکی سفارتکاروں نے اپنے عرب ہم منصبوں پر زور دیا کہ وہ حزب اللہ کو پیغامات پہنچانے میںمدد کریں۔ تاکہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان کسی بھی قسم کی جنگ چھڑنے سے روکنےکی کوشش کی جا سکے۔” "
اخبار سے باتکرنے والے دونوں فریقوں کے عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ”انھوں نے اسرائیلیوں کو اشتعال انگیز فوجی کارروائیوں کے خلاف متنبہ کرنے کےلیے واضح زبان استعمال کرنے سے گریز کیا، کیونکہ وہ اس کمزوری کو سمجھتے ہیں جواسرائیلی حکام نے 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد محسوس کی تھی۔ لیکن بائیڈن اور بلنکندونوں نے اپنے خدشات کو واضح کردیا۔”
حکام نے کہا کہ”بائیڈن نے گذشتہ بدھ کو اسرائیلی جنگی کابینہ سے ملاقات کی، جہاں اسرائیلیوزیر دفاع یوآو گیلنٹ موجود تھے۔ انہوں نے بڑے پیمانے پر تنازع کے نتیجے میں ہونےوالے بہت سے نتائج کے بارے میں مشکل سوالات پوچھ کر دو محاذوں پر جنگ کے خطرات پرزور دیا۔
بائیڈن نے امریکیحکام کی طرف سے عراق پر حملہ کرنے اور افغانستان میں ایک طویل، کھلی جنگ شروع کرنےکے لیے کیے گئے تباہ کن فیصلوں کا بھی تذکرہ کیا۔
امریکہ ایران تصادم سے گریز کریں
اخبار نے حزباللہ پر اسرائیلی حملے روکنے کے لیے سینیر امریکی حکام کی طرف سے کی جانے والیکوششوں کا انکشاف کیا۔
اس نے وزیر اعظمبنجمن نیتن یاہو کی جنگی منصوبہ بندی کے بارے میں بائیڈن انتظامیہ کے خدشات کےبارے میں بات کی، یہاں تک کہ الجزیرہ نیٹ کے شائع کردہ کے مطابق دونوں حکومتیں ایکمتحد اور مضبوط محاذ کے طور پر عوامی طور پر ظاہر ہونا چاہتی ہیں۔
اس میں دونوںجماعتوں کے عہدیداروں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ’’امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کےسینیر معاون تل ابیب پر زور دے رہے ہیں کہ وہ حزب اللہ کے خلاف کوئی بڑا حملہ نہکرے، تاکہ اسے جنگ میں نہ گھسیٹا جائے۔‘‘
انہوں نے مزیدکہا کہ "امریکی حکام کو تشویش ہے کہ اسرائیل کی جنگی کابینہ کے کچھ انتہائیسخت گیر ارکان حزب اللہ کا مقابلہ کرنا چاہتے تھے، جب کہ اسرائیل نے حماس کے خلافاپنی تازہ ترین کارروائی شروع کرنے کے بعد طویل جدوجہد شروع کی تھی۔”
انہوں نے مزیدکہاکہ "امریکی حکام کا خیال ہے کہ اسرائیل دو محاذوں پر جنگ میں مصروف ہوجائے گا، جس کے بعد یہ تنازعہ امریکا اور ایران دونوں کو تصادم کی طرف لے جا سکتاہے”۔