یوروپی یونینمغربی دنیا کے ان نام نہاد لیڈروں کی فہرست میں شامل ہوگئی ہے جو فلسطینی تنظیمحماس کی مزاحمتی کارروائیوں کی شدید الفاظ میں مذمت مگر صہیونی فوج کی نہتےفلسطینیوں کے خلاف جاری وحشیانہ جنگی جرائم پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔
امریکی، مغربیاور یورپی ممالک کےلیڈروں کی طرف سے بار بار یہ بیانات سامنے آتے رہے ہیں کہ وہحماس کی کارروائیوں پر صہیونی ریاست کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ ممالک ایک طرف انسانیحقوق، بنیادی شہری آزادیوں کی بات کرتے ہیں مگر وہ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والےجرائم پر دوہرے معیار پر چل رہے ہیں۔
یورپی یونین کمیشنکی صدر ارسولا وان ڈیر لیین، پارلیمنٹ کی سپیکر روبرٹا مٹسولا کے ہمراہ اسرائیلیوزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو تسلی دینے آئی تھیں۔
جس وقت وان ڈیر لییناور میٹسولا نیتن یاہو کو تسلی دے رہی تھی اور ان سے اسرائیل کے لیے مکمل حمایت کاوعدہ کر رہی تھی، اس وقت غزہ پر اندھا دھند اسرائیلی بمباری میں شہداء کی تعداد1800 تک پہنچ گئی تھی، جن میں 600 بچے بھی شامل تھے، جب کہ مغربی کنارے میںاسرائیلی فوج کی وحشیانہ دہشت گردی میں 45 فلسطینی شہید ہو گئے تھے۔
خبر رساں اداروںکے مطابق ڈیئر لائن نے دعویٰ کیا کہ "یہ حملہ ہولوکاسٹ کے بعد یہودیوں کےخلاف سب سے زیادہ خوفناک حملہ ہے”۔
بڑے یورپی وفد کےدورے سے ایک دن پہلے امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن تل ابیب آئے اور "غزہ کیجنگ میں اسرائیلی نظم و ضبط” کی بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ مہم جاری رہے گی۔
آسٹن نے غزہ کےشہداء کی فہرست نہیں دیکھی، جس میں سینکڑوں بچے اور خواتین شامل ہیں جو اس جارحیت کے نتیجے میں شہید ہوگئے تھے۔
مغربی حکام نےغزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیل کی طرف سے کیے جانے والے جرائم اور اندھا دھندبمباری، سفید فاسفورس کے استعمال، محاصرے اور فاقہ کشی کے علاوہ شہداء کی تعداد میںاضافہ کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔
انہوں نے اپنےشہریوں کے لیے ایک انسانی راہداری کھولنے کی تجویز پیش کی اور غزہ کے ان لوگوں کےلیے کوئی تسلی نہیں ہے جو بمباری، بھوک، پیاس، قتل اور مسلط محاصرے کی زد میں ہیں۔
خیال رہےکہ ساتاکتوبر سے غزہ کی پٹی پر جاری اسرائیلی فوج کی وحشیانہ کارروائیوں کے نتیجے میںشہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد تین ہزار سے تجاوز کرگئی ہے جب آٹھ ہزارفلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔ شہداء اور زخمیوں کی اکثریت بچوں اور خواتین پر مشتمل ہے۔