اتوار کی شام عوفر جیل میں تمام دھڑوں کے قیدیوں نےتمام سیکشنزبند کر دیے، کھانا واپس کردیا اور تنظیمی اداروں کو تحلیل کر دیا۔
قیدیوں کے امور کی اتھارٹی اور اسیران کلب نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ یہ قدم قابض جیل انتظامیہ کی جانب سے طویل عمر کی سزاؤں کے حامل قیدیوں اور اسیران تحریک کے رہ نماؤں قید تنہائی میں ڈالنے، انہیں ایک دوسرے سے الگ کرنے کے فیصلے کے ردعمل میں اٹھایا گیا ہے۔
خیال رہے کہ اسرائیلی جیل حکام نے حال ہی میں نفحہ جیل اور عوفر میں فلسطینی قیدیوں کی قیادت کو الگ الگ کرنے اور انہیں قید تنہائی میں ڈال دیا تھا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ قیدی ریگولیٹری باڈیز کو تحلیل کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
یہ قدم ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب فلسطینی قیدیوں کو قابض حکومت کے انتہا پسند وزیر ایتمار بن گویر کے فیصلوں کا سامنا ہے، جس میں قابض حکومت کے استکبار کو روکنے کے علاوہ قید کی پوری تاریخ میں اپنے حقوق اور کامیابیوں کے تحفظ اور ظالم ریاست کو روکنے کے لیے ایک نئی جنگ لڑی جا رہی ہے۔
قومی قیدیوں کی تحریک کی ہنگامی کمیٹی نے جمعرات کو کھلی بھوک ہڑتال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے اسرائیلی ریاست سے ان تمام فیصلوں اور پالیسیوں کو روکنے کا مطالبہ کیا جس میں ان کے حالات زندگی کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
قابض حکام نے اپنی جیلوں میں 5000 سے زائد فلسطینی قیدیوں کو حراست میں رکھا ہے جن میں 32 خواتین، 160 بچے اور 1200 انتظامی قیدی (بغیر کسی الزام کے) شامل ہیں۔ قیدیوں کے امور کے کمیشن کی ویب سائٹ پر اعلان کردہ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق 700 قیدی بیماریوں میں مبتلا ہیں، 554 عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں، 400 قیدی برسوں سے پابند سلاسل ہیں اور 15 صحافی قید ہیں۔