فلسطین میںانسانی حقوق کے کارکنوں کی طرف سے غرب اردن کے جنوبی شہر الخلیل یونیورسٹی میںطلبا پر مسلح افراد اور عباس ملیشیا کے اہلکاروں کے تشدد اور اسلامک بلاک کے طلبا کے بھیس میں احتجاجیڈرامہ رچانے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
فلسطین کے سماجیاور انسانی حقوق کارکن اور انسانی حقوق کے فری کمیشن کےڈائریکٹر فرید الاطرش نےکہاکہ یونیورسٹی کے سامنے ہونے والے ڈرامے سےیونیورسٹی کے چوک میں توڑپھوڑ کرنے والی جماعتوں کی موجودگی کی نشاندہی ہوتی ہے اوراس طرح کے واقعات میں طلبا کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
انہوں نے "حریہنیوز” کی طرف سے رپورٹ کردہ ایک پریس بیان میں کہا کہ الخلیل یونیورسٹی کے سامنےآج جو کچھ ہوا وہ پہلے ہی لمحے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں اسلامک بلاک اور اس کیقیادت کو نشانہ بنایا گیا۔
انہوں نے وضاحت کرتےہوئے کہا کہ انہوں نے یونیورسٹی انتظامیہ سے رابطہ کیا تھا اور اس بات کی نشاندہی کیتھی کہ میدان میں چھیڑ چھاڑ کرنے والی جماعتیں ہیں اور اس کے پیچھے کون ہے اس کا پتہلگانے کے لیے تحقیقات ہونی چاہیے۔الاطرش نے اس باتکی ضرورت پر زور دیا کہ اس واقعے کی سنجیدہ اور ٹھوس تحقیقات کی جائیں اور یہ معلومکیا جائے کہ اس اس واقعے کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔۔ الخلیل یونیورسٹی کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔
الخلیل یونیورسٹیکے اسلامی بلاک نے یونیورسٹی کے دروازوں کے سامنے کسی بھی دھرنے سے اپنی لاتعلقی کا اظہار کیا اور کہا کہ اب یونیورسٹی کےدروازے کے سامنے سبزنقاب پوش افراد کے گروپ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔الخلیل گورنری میںاسلامی تحریک مزاحمت [حماس] نے آج صبح الخلیل یونیورسٹی کے دروازوں کے سامنے ایک مشکوکجماعت کی طرف سے اسلامی بلاک کی طالبات کے بھیس میں کھلے عام کھیلے جانے کی ڈرامےکی شدید مذمت کی ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ گروپ اسلامک بلاک کو بدنامکرنے کے لیے اس طرح کا ڈرامہ رچا رہا ہے۔
خیال رہے کہگذشتہ روز حماس کے حمایت یافتہ طلبا گروپ اسلامک بلاک کے طلباء کے بھیس میں کچھ عناصرنے یونیورسٹی کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا اور اس گروپ نے اسلامک بلاک کو بدنامکرنے کی مذموم کوشش کی جس پر اسلامک بلاک کی طرف سے سامنے آنے والے موقف میں واضحکیا گیا ہےکہ اس کا اس طرح کے دھرنے سے کوئی تعلق نہیں اور دھرنا دینے والے افراداس گروپ سے تعلق نہیں رکھتے۔