دنیا بھر کے سینکڑوں ماہرین تعلیم اور دانشورورں نے کہا ہے کہ فلسطینی اراضی پر اسرائیل کے طویل مدتیقبضے کے نتیجے میں ایک "نسل پرست حکومت” پیدا ہوئی ہے۔
پیر تک اسرائیل، امریکا اور دیگر ممالک کے 417 ماہرین تعلیمکی طرف سے "کمرے میں ہاتھی” کے عنوان سے دستخط کردہ ایک پٹیشن میں سامنےآیا۔
پٹیشن پر دستخط کرنے والوں میں ییل، ہارورڈ، شکاگو، مشی گن،واشنگٹن اور پرنسٹن یونیورسٹیوں کے امریکی ماہرین تعلیم کے علاوہ برطانیہ اور جرمنیکے یونیورسٹیوں کے پروفیسرز بھی شامل ہیں۔ یہ تل ابیب، عبرانی اور حیفا یونیورسٹیوںاور اسرائیل کی بین گوریون یونیورسٹیوں کے اسرائیلی ماہرین تعلیم کے علاوہ ہے۔
پٹیشن میں "عدلیہ پر اسرائیل کے تازہ ترین حملے اور فلسطینیزمینوں پر جہاں لاکھوں فلسطینوں کا حوالاہ دیا جن کے خلاف آئے روز قوانین کیپامالیاں ہوتی ہیں۔
دائیں بازو کی اسرائیلی حکومت کے عدالتی ترامیم سیٹ کو منظورکرنے کے اصرار کے خلاف ہفتوں سے مظاہرے جاری ہیں، جسے حزب اختلاف "اسرائیل کوایک آمریت میں بدلنے” کے طور پر بیان کرتی ہے۔
پٹیشنز میں یہ بھی کہا گیا ہے: "فلسطینی عوام تقریباً تمامبنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ انہیں ووٹ اور احتجاج کا حق بھی نہیں۔ انہیں مسلسل تشددکا سامنا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ صرف اس سال اسرائیلی فورسز نے مغربی کنارےاور غزہ کی پٹی میں 190 سے زائد فلسطینیوں (شہیدوں کی اصل تعداد 22 ہے) کو شہید کیااور 590 سے زائد عمارتوں کو منہدم کیا۔ یہودی آباد کاروں کے فلسطینیوں پر قتل کےدریغ حملے ، لوٹ مار اور جلاؤ گھیراؤ کی کارروائیاں اس کے علاوہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "اسرائیل میں یہودیوں کے لیے اس وقت تکجمہوریت نہیں ہو سکتی جب تک فلسطینی نسل پرستی میں زندہ رہیں گے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ "عدالتی اصلاحات کا حتمی مقصد غزہپر پابندیاں سخت کرنا، گرین لائن کے باہر اور اندر فلسطینیوں کو مساوی حقوق سے محرومکرنا، مزید زمینوں کا الحاق کرنا اور اسرائیلی حکمرانی کے تحت تمام زمینوں کو نسلیطور پر پاک کرنا ہے۔”