اسرائیل کےایک کثیر الاشاعت عبرانی اخبار’یدیعوت احرونوت‘نے ایک تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ آبادکاری کے فارم جو کہ مغربی کنارے کی بڑیچراگاہوں پر پھیلے ہوئے ہیں آباد کاروں کی طرف سے سیکٹر”C” کے زمرے میں آنے والے علاقوں پر قبضہ کرنے کا ایکذریعہ ہیں۔ خیال رہے کہ اوسلو معاہدے کی تقسیم کے تحت سیکٹر ’سی‘ غرب اردن کے کلرقبے کا 61 فیصد ہے۔
"یدیعوت”نے انکشاف کیا کہ قابض اسرائیلی وزارت دفاع نے ایسا طریقہ کار تیار کیا ہے جس کا مقصدآباد کاروں کوقیمتی زمینیں دینا اور ان پر فلسطینی دیہات سے دور ان پر فارم قائم کرناہے۔اس سے تصویر مزید پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی تصدیق فوج کے ایک اعلیٰ افسر نےبھی اخبار کو کی، جس نے کہا، ’’بستیوں کی چراگاہوں کی کہانی پیچیدہ ہے۔‘‘
انہوں نے وضاحت کی کہ اس سال وادی اردن، الخلیل اور مغربی کنارےمیں تقریباً ہر جگہ چراگاہوں پر آباد کاروں اور فلسطینیوں کے درمیان درجنوں جسمانیتصادم ہوئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جمعہ کے روز برقہ گاؤں پر آباد کاروں کی طرف سے کیاگیا دہشت گردانہ حملہ گاؤں والوں اور آباد کاروں کے درمیان چراگاہوں کے تنازعات کاحصہ ہے۔
اس نے کہا کہ یہودی ربیوں کی آبادکاری کے فارم "مغربی کنارےکی بستی کی پہاڑیوں میں آج ہونے والی آبادکاری کی سرگرمیوں کا سب سے بڑا مظہر ہیں۔یہ آبادکاری فارمز کا طریقہ جنہیں آباد کاروں نے ایریا Cپر قبضہ کرنے کے لیے ایجاد کیا تھا، ان کے پیچھے ایک سادہ اصول ہے: چندآباد کار بہت ساری زمینوں پر قبضہ کر سکتے ہیں اور اس کا مقصد ایک خاندان یا نوجوانوںکے ایک گروپ کو کسی اسٹریٹجک جگہ پر رہائش، بھیڑ بکریاں چرانا اور ان زمینوں کی حدودکا تعین کرنا ہے۔
اخباری رپورٹ کے مطابق آبادکاری کے فارموں کی کوئی صحیح تعدادنہیں ہے، لیکن اندازوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں درجنوں فارم ہیں، اور ان کی وجہ سے،آباد کاروں اور فلسطینیوں کے درمیان محاذ آرائی بڑھ گئی ہے۔ قابض فوج کے ایک سینئرافسر نے اخبار کو بتایا کہ یہ تصادم قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیں اور مغربی کنارےکو کشیدگی کی نئی سطح پر دھکیل رہے ہیں۔
اس کیس سے واقف ایک اور افسر نےکہا کہ یہودی بستی کی چراگاہیںاور اس کے نتیجے میں ہونے والی تصادم اس کی تفصیل کے مطابق "موجودہ دہشت گردی”کے دائرے کو بڑھاتے ہیں۔ لوگ اپنی مرضی کے خلاف اس میں داخل ہوتے ہیں۔ جب وہ آباد کاروںکو ان کی زمینیں لیتے ہوئے دیکھتے ہیں تو”وہ خود کش حملے کرتے ہیں۔