شنبه 22/مارس/2025

فلسطینی قیدیوں پر سختیاں بڑھانے کا نیا صہیونی حربہ

اتوار 30-جولائی-2023

 

اسرائیل کے انتہا پسند قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر نےفلسطینی قیدیوں کی جلد رہائی روکنے کے ایک نے حکم نامے کی توثیق کی ہے۔ قیدیوںکی  سزا پوری ہونے سے قبل رہائی کے اقدامکو "المنہلی” کہا جاتا ہے۔ مگر اس حوالے سے اسرائیلی وزیر کا ایک نیاحکم نامہ سامنے آیا ہے۔

 

"المنہلی” ایک ایسا طریقہ کار ہے جس کے مطابق قابضجیل انتظامیہ قیدیوں کو ان کی سزا ختم ہونے سے چند دن ، ہفتے یا مہینے رہا کرتی ہے۔جیلوں میں قیدیوں کی تعداد کو کم کرنے کے لیے اور اسے وقفے وقفے سے فعال کیا جاتا ہے۔

 

عبرانی اخبار معاریو نے رپورٹ کیا کہ بین گویر نے گذشتہ ہفتےقیدیوں کی جلد رہائی کے قانون میں ترمیم کی تھی تاکہ "فوج داری کیسز میں قید”فلسطینیوںکو اس سے خارج کیا جا سکے۔

 

ترمیم کے مطابق وہ قیدی جو جلد رہائی کی شرائط پر پورا اترتےہیں ان کی نظر بندی کی مکمل مدت ختم ہونے سے پہلے رہا نہیں کیا جائے گا۔

 

اخبارنے نشاندہی کی کہ یہ فیصلہ فلسطینی قیدیوں پر دباؤ ڈالنےکی بین گویر کی کوششوں کا حصہ ہے۔

 

دوسری طرف انسانی حقوق گروپ ’عدالہ‘ نے بن گویر کے فیصلے پرکڑیتنقید کی ہے۔ انسانی حقوق گروپ کا کہنا ہے کہ فلسطینی قیدیوں کو جلد رہائی سے خارجکرنا نسل پرستانہ ہے۔

 

جہاں تک "بن گویر” کا تعلق ہے اس نے زور دیا کہ وہجیلوں میں قیدیوں کے لیے "آرام دہ حالات” کو ختم کریں گے اور ان کیمشکلات میں اضافہ کریں گے۔

 

"المنہلی”کے تحت قبل از وقت رہائی میں 10 سال سے کم سزا والے قیدی شامل تھے اور زیادہ سزاؤںاور عمر قید کی سزا والے قیدیوں کو خارج کر دیا گیا تھا۔

 

المنھلی کے مطابق قیدی کی سزا میں سے 21 دن کاٹے گئے، جنہیںایک سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ دو سے چار سال کے درمیان سزا پانے والے قیدیوں سےدو سے تین ماہ کی کٹوتی کی گئی تھی۔

 

غزہ میں قیدیوں اور سابق قیدیوں کی وزارت نے قیدیوں کے خلافانتہا پسند بن گویر کے فیصلے کو ایک نیا جرم قرار دیتے ہوئے اسے قیدیوں کے خلافسنگین جرم قرار دیا۔

 

وزارت نے کہا کہ انتہا پسند بن گویر کی طرف سے فلسطینی قیدیوںکی جلد رہائی کو روکنے کے فیصلے کی توثیق ایک نیا جرم اور قیدیوں کے عزم کو کمزور کرنےکی مذموم کوشش ہے۔

مختصر لنک:

کاپی