اسرائیل میں نئی عدالتی ترامیم کی منظوری کے بعد بحران مزید بڑھ رہا ہے۔ حال ہی میں سینئر جوہری سائنسدانوں کے ایک گروپ نے اسرائیلی کنیسٹ کی طرف سے عدالتی ترامیم کی منظوری کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنے عہدوں سے دستبردار ہونے اور استعفیٰ دینے کی دھمکی دی ہے۔
اسرائیلی میڈیا رپورٹ کے مطابق "یہ معاملہ دس سائنس دانوں کے گروپ سے متعلق ہے، جو اسرائیل کی ایٹمی صلاحیت کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں اور اسرائیل کی جوہری صلاحیتوں کو فروغ دینے کے لیے ایٹمی پروگرام کے ذمہ دار ہیں۔
ان کے درمیان حالیہ ہفتوں میں اس بارے میں بات چیت ہوئی کہ آیا ریاست کی خدمت جاری رکھنا درست ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان میں سے ہر ایک اپنا فیصلہ خود کرے گا مگر وہ اس معاملے پر آپس میں متفق ہیں۔
"اس معاملے پر ایٹمی سائنس دان اپنے پیشرووں کے ساتھ ساتھ اسرائیل میں سائنسی-فوجی برادری کے کے ساتھ بات چیت کررہے ہیں، اور انہوں نے ابھی تک اس معاملے کو حکام کے سامنے نہیں اٹھایا ہے۔”
احتجاج اور غصہ
اسرائیلی کنیسٹ نے عدالتی ترامیم سے متعلق پہلے مسودہ قانون کی منظوری گذشتہ روز دی جو ملک میں سپریم کورٹ کے اختیارات کو محدود کرتا ہے، جس سے شہریوں کی طرف سے مزید احتجاج شروع ہوا، جو ان اقدامات کو اپنی جمہوریت کے لیے خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
اسرائیلی مظاہرین اور سیاسی رہنماؤں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر حکومت اپنے راستے پر چلتی رہی تو ہزاروں سرکاری رضاکار خدمات انجام نہیں دے سکتے۔
سابق سینئر فوجی افسران نے بھی خبردار کیا کہ اسرائیل کی جنگی تیاری خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
خیال رہے کہ "معقولیت کا قانون” عدلیہ کو حکومتی فیصلوں کو مسترد کرنے کا قانونی اور انتظامی اختیار فراہم کرتا ہے، چاہے وہ وزارتوں اور دیگر سے عوامی خدمت میں تقرریوں کے حوالے سے ہو، یا دوسرے عوامی فیصلے جو عوامی مفاد سے متصادم ہوں اور مفاد عامہ کو مناسب اہمیت نہ دیں۔
اس قانون کے خاتمے کا مطلب حکومتی فیصلوں، خاص طور پر وزراء، ان کے نائبین اور دیگر کی تقرریوں میں مداخلت کرنے میں سپریم کورٹ کے کردار کو پس پشت ڈالنا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ اس بل کی حمایت پارلیمنٹ کے 120 میں سے حکومتی اتحاد کے 64 ارکان نے کی۔ اپوزیشن کے اراکین نے ووٹنگ کے عمل کا بائیکاٹ کیا جس کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی۔