چهارشنبه 30/آوریل/2025

’کیبل کار‘ مقبوضہ بیت المقدس کی شناخت تبدیل کرنے کا نیا صہیونی ہتھکنڈہ

جمعرات 13-اپریل-2023

فلسطین کے تاریخیشہرمقبوضہ بیت المقدس کو یہودیانے کے لیے نسل پرست صہیونی ریاست نت نئے منصوبے اورسازشیں رچاتی رہتی ہے۔ دشمن ریاست کے ان سازشی منصوبوں کا مقصد ایک طرف یہودیانتہا پسندوں کو شہر میں اپنے پنجے گاڑنے کے مواقع فراہم کرنا اور دوسری طرف القدسکی تاریخی اسلامی، عرب، تہذیبی اور ثقافتی شناخت مٹا کراسے دنیا کےسامنے ایک یہودیشہر کے طور پر پیش کرنے کا ڈھونگ رچانا ہے۔

القدس کی شناختمٹانے کے لا تعداد سازشی ہتھکنڈوں میں معلق ہوائی پل[ایئربرج] اور ’کیبل کار‘ جیسے منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔ ’کیبل کار‘ یہ نیا منصوبہبہ ظاہر یہ ایک پل ہے جویہودی آباد کاروں کو مسجد اقصیٰ تک پہنچنے کے لیے مختصراور مخفوظ راستہ فراہم کرے گا مگراس کے در پردہ اصل مقصد القدس شہر کی اسلامی، عرباور ثقافتی علامات کو مٹانا اور القدس پر یہودی تلمودی چھاپ کو مستحکم کرنا ہے۔

کیبل کار 200 میٹرسے زیادہ طویل ہے۔ اس پل کے ذریعے قابض صہیونی حکام  سلوان کی فضا میں گھس کر القدس شہر میں یہودی اسٹیٹسکو مسلط کرنا چاہتے ہیں۔

اس منصوبے پرکئی  مہینوں سے کام جاری ہے اور اب قابض حکام سلوان قصبے کے وادیالربابہ محلے میں معلق فضائی پل کے منصوبے کی تکمیل کے قریب ہیں جو مسجد اقصیٰ کےجنوب میں آباد کاری کے سب سے بڑے منصوبوں میں سے ایک ہے۔ اس کا مقصد یہودی آباد کاروں کو  حرم قدسی تک رسائی اور نقل حرکت کی سہولت فراہمکرنے کے ساتھ شہر کی اسلامی خصوصیات کو تبدیل کرنا ہے۔

یہودیوں کے نقوش

القدس میں نامنہاد ’کیبل کار‘ منصوبے کو فلسطینی تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

یروشلم کے امورکے ماہرناصر الہدمی کا کہنا ہے کہ قابض حکام وادی الربابہ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اس مقصد کے لیے آبادکاری کے منصوبوں پرکام جاری ہے جن میں اہم منصوبہ ’ایئربرج‘ یاکیبل کار کا ہے۔ یہ پل الثوری محلے سے شروع ہوتا ہے، وادی الربابہ کے محلے سے گذرتاہوا نبی داؤد کے مقام تک جاتا ہے۔ ہوا میں کیبل کار اور  وادی ربابہ کی زمین میں یہودیوں کی جعلی قبریں بنانے،بائبل ٹریکس بنانے اور توراتی باغات بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

الہدمی نےمرکزاطلاعات فلسطین سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قابض ریاست کی توجہ وادی الربابہ کےعلاقے پر مرکوز ہے۔ یہ اس لیے بھی توجہ کامرکز ہے کیونکہ یہ مسجد اقصیٰ کے قریب واقع ہے۔

انہوں نے وضاحت کیکہ قابض حکام اس طرف سے یروشلم کے محلوں میں گھسنا چاہتا ہے اور انہیں یہودیبستیوں کے ذریعے ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتا ہے جس میں آباد کاروں کے غول شہر کو کنٹرولکرنے اور یروشلم کی کمیونٹی کو مسجد اقصیٰ میں جمع ہونے اور آپس میں میل جول سےروکنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس منصوبے کاکوئی ایک مقصد نہیں۔ اس کے کئی ایک مقاصد ہیں جن میں مسجد اقصیٰ میں آباد کاروں کیدراندازی کو آسان بنانا، انہیں مزید تحفظ فراہم کرنا، شہر کے مشرقی حصوں میں آبادکاروں کی موجودگی کو معمول پر لانا، ان محلوں میں ان کو گھسانا، اس طرح القدس کو ٹکڑےٹکڑےکرنا اور اس کی شناخت تبدیل کرنا جیسے مذموم مقاصد اس منصوبے کے پیچھے موجود ہیں۔

اس منبصوبے پراصل کام گذشتہ نومبر میں شروع ہوا تھا اور یہ 200 میٹر سے زیادہ طویل کیبل کار تیار کرنے کام کام دن رات جاری رہا۔ اسکی سطح زمین سے اونچائی 35 میٹر اور چوڑائی 4.5 میٹر ہے۔

ثقافتی شناخت کو تبدیل کرنا

اسلامک کرسچن کمیشنکی سیکرٹری جنرل حنا عیسیٰ کا کہنا ہے کہ وادی الربابہ کا محلہ دیگر وادیوں کےعلاوہ مقدس شہر کی سرزمین کا ایک اٹوٹ انگ ہے اور اسی وجہ سے قابض حکام اسے آبادکرنے اور یہودیانے کے لیے سرگرم ہیں۔

عیسیٰ نے فلسطینیانفارمیشن سینٹر کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ اسرائیل اب 600 مربع کلومیٹر کےرقبے پر نام نہاد ’عظیم تر یروشلم‘ منصوبہ بنا رہا ہے، جس کا مقصد شہر کو یہودیتمیں تبدیل کرنا، ایک نیا یہودی کردار تخلیق کرنا ہے۔ "گریٹر یروشلم” کےنام سے تیار کردہ اس منصوبے کے ذریعے القدس کی ثقافتی، تہذہبی اور اسلامی شناختکومٹانا اور ان کی جگہ یہودیوں کی مذہبی علامات کو فروغ دینا ہے۔

اس مکروہ منصوبے کےلیے اسرائیلی ریاست نے اپنی تمام ریاستی مشینری لگا رکھی ہے اور القدس پرصہیونیتاور یہودیت کی تہذیبی یلغار مسلط ہے۔

قابض حکومت نے اسپروجیکٹ کے لیے تقریباً 20 ملین شیکل مختص کیے۔ منصوبے پرکام کرنے والے اسرائیلیاداروں میں یروشلم ڈیولپمنٹ اتھارٹی، قابض میونسپلٹی، بلدیہ کی "موریا” کمپنی، "ایلعاد” سیٹلمنٹایسوسی ایشن ، وزارت القدس امور اور وزارت سیاحت جیسے اہم ادارے شامل ہیں۔

منصوبے کے مطابق یہکیبل کارمئی 2023 میں باقاعدہ آپریشن جائے گی۔ یہ پل پیدل چلنے والوں کو یروشلمکے مختلف محلوں کے درمیان سے گذرنے کی سہولت دے گا اور پرانے شہر اور دیوار براقتک آباد کاروں کی رسائی کو آسان بنائے گا۔

یہودی بائبلی چھاپ

یروشلم پر نظررکھنے والے تجزیہ نگار محمد جاد اللہ نے کہا ہے وادی الربابہ کی قدرتی اورمورفولوجیکل خصوصیات نمایاں طور پر تبدیل کردی گئی ہیں” انہوں نے توجہ دلائی "پُلکے نیچے شہر میں تیزی سےنمو پانے والے غیر ملکی پھل دار پودے لگائے ہیں جو کم وقتمیں پھل دیتے ہیں۔ اس کا مقصد ایک نیا یہودی بیانیہ تخلیق کرنا ہے۔

الجاداللہ نےوضاحت کی اس منصوبے کی خاطر محلے میں قابض حکام کی طرف سے بہت سی تبدیلیاں کی گئیہیں، جن میں اس جگہ کا جغرافیہ تبدیل کرنا بھی شامل ہے۔ اس  کے لیے اسرائیلی بلدیہ نے دیواریں تعمیر کیں، خیمےلگائے، اور علاقے میں سرنگیں کھودنا شروع کیں اور پانی اور بجلی کے سٹیشن قائم کیے”۔

انہوں نے نشاندہیکی کہ "اس منصوبے کا بنیادی مقصد غیر ملکی سیاحوں کو یہودی بیانیہ کے بارے میںقائل کرنا ہے۔ جب سیاح کیبل کار میں سوار ہوں گے تو انہیں اپنے اردگرد سبز باغاتنظر آئیں گے جن میں بائبل کے یہودی کردار ہوں گے۔”

انہوں نے مزیدکہا "یہ پل کا منصوبہ یروشلم کی مغربی سرحدوں پر واقع سلوان ٹاؤن کے علاقے میںآتا ہے۔ اس لیے قابض ریاست مسجد اقصیٰ اور پرانے شہر تک آباد کاروں کی رسائی کوفعال کرنا چاہتی ہے۔”

انہوں نے مزیدکہا کہ "کیبل کار کے ذریعے پرانے شہر اورمسجد اقصیٰ کا فاصلہ کم ہوگا اوریہودی آباد کاروں کی زیادہ تعداد وہاں پر پہنچ سکے گی۔

آثار اور علامات میں تبدیلی

یروشلم کے محققراسم عبیدات نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وادی ربابہ کے پڑوس میں کیبل کار یروشلم کے سب سے خطرناک آباد کاری کےمنصوبوں میں سے ایک ہے اور یہ سیاحتی آباد کاری کا منصوبہ ہے۔

عبیدات نے القسطلنیٹ ورک کی طرف پر شائع ایک بیان میں کہا کہ "خطے میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے عزائمبہت بڑے ہیں۔ قابض حکا نے پورے شہر سلوان کو نشانہ بنایا ہے، جس سے "ہولی بیسن”[حوضمقدس] کانام دیتے ہیں۔ اس میں پرانے شہر کے ارد گرد کی ہر چیز اور مسجد اقصیٰ کےقریب پہاڑوں کی تمام ڈھلوانیں بھی شامل ہیں۔

انہوں نے متنبہ کیاکہ "قابض حکا یروشلم کے پورے شہر کو یہودیت میں تبدیل کرنا ،اس کے جغرافیائیکردار اور مجموعی منظر نامے کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس مرحلےکے دوران یہودی آباد کاری اور یہودیت کے منصوبوں کو نافذ کررہے ہیں۔

فلسطینی دانشورنے کہا کہ”قابض حکا نے وادی ربابہ کے پورے محلے کے قلب میں منصوبے شروع کیے۔اسرائیلی نیچر اتھارٹی نے بڑے درخت لائے اور انہیں کیبل کار کے نیچے وادی میں لگایا۔ اس نے زمینوںکی خصوصیات کو بھی بدل دیا اور اراضی کو تلمودی بائبل کے حوالوں کے مطابق تیارکرکے القدس کی شناخت تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔

وادی الربابہ تقریباً210 دونم کے رقبے پر محیط ہے اور اس کےرہائشی قابض حکام اور یہودی آباد کاروں کے خلاف نبرد آزما ہیں اور اپنی زمینوں پراپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں کیونکہ انہیں کسی بھی وقت ان کے گھروں اور زمینوں سےبے دخل کیا جا سکتا ہے۔

جہاں تک وادیربابہ کے نام کا تعلق ہے تو اس کی وجہ تسمیہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس کا بالائی حصہتنگ ہے۔ یہ دھیرے دھیرے نیچے کی طرف چوڑی ہوتی جاتی ہے۔ یہ قدیم عربی موسیقی کےآلے الربابہ سے ملتا جلتا ہے۔

ایک بڑی سکیم کا حصہ

یروشلم کے امورکے ایک ماہر فخری ابو دیاب نے خبردار کیا ہے کہ "وادی الربابہ کا علاقہ مسجداقصیٰ کے ارد گرد بائبل کے باغات میں قابض ریاست کے منصوبے کا ایک بڑا حصہہے۔”

ابو دیاب نےنشاندہی کی کہ "قابض ریاست تلمودی اور بائبل کے باغات کے ذریعے مسجد اقصیٰ کاگلا گھونٹنا چاہتی ہے۔ مسجد اقصیٰ کے آس پاس کے منظر کو تبدیل کرنا، علاقے کی نوعیتکو قدرتی انداز میں تبدیل کرنا تاکہ مسجد اقصیٰ کی طرف آنے والے ہرشخص کی یہودینظریات کے مطابق برین واشنگ کی جا سکے۔

انہوں نے وضاحت کیکہ "اس منصوبے کا بنیادی مقصد علاقے کی شناخت کو تبدیل کرنا اور یروشلم کےباشندوں کی زمینوں پر اپنا تسلط قائم کرنا اور انہیں ان سے فائدہ اٹھانے سے روکناہے۔

انہوں نے کہا کہ”قابض حکام اس منصوبے میں اس لیے بھی دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ یہ سب سےخطرناک آباد کاری کے منصوبوں میں سے ایک ہے، جو قابض ریاست کی خواہشات کو پوراکرتا ہے۔ یہ یروشلم شہر کے پورے مہذب چہرے کو تبدیل کرنے کے منصوبوں میں شامل ہے۔

خطے میں یہودیوںکےفنگرپرنٹ کے صہیونی اقدامات میں تیزی کے باوجود؛ اس کے عرب ثقافتی ورثے کو چھیننےکے لیے، اور مسجد اقصیٰ کو یہودیانے کے منصوبوں کی پٹی سے گھیرنے کے لیے، یروشلمکے باشندے متفقہ طور پر اس بات پر متفق ہیں کہ قبضے کی ناک کے باوجود یروشلم شہر کیعرب-اسلامی شناخت موجود اور باقی رہے گی۔

مختصر لنک:

کاپی