چهارشنبه 30/آوریل/2025

مسجد اقصیٰ اور مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیل کی چیرا دستیاں

جمعرات 6-اپریل-2023

رواں سال کے آغاز میں صہیونی ریاست میں انتہا پسندوں کے اقتدار میں آنے کے بعد سے مقبوضہ بیت المقدس شہر کے تمام علاقے اسرائیلی ریاست کے منظم جرائم کا شکار ہیں۔ اسرائیل کی نئی حکومت کی طرف سے القدس پر طرح طرح کی غیر معمولی ناروا پابندیاں عاید کی گئی ہیں۔ القدس کے باشندوں کا ناطقہ بند کیے جانے اور ان پر عرصہ حیات تنگ کیے جانے کے نتیجے میں صورت حال مزید الارمنگ ہوتی جا رہی ہے۔ مسجد اقصیٰ اور القدس کی الارمنگ صورت حال کو درج ذیل نکات کے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے۔

مسجد اقصیٰ پر دھاووں کی سیاست

اسرائیلی ریاست کی سرپرستی میں مسجد اقصیٰ پر دھاوا بولنے کی پالیسی جس میں 2022 میں شدت اختیار کر گئی تھی اس میں مزید تیزی آ رہی ہے۔ پچھلے سال 56000 یہودی آباد کاروں نے مسجد اقصیٰ پرچڑھائی کی۔ یہودی آباد کار اپنی مذہبی رسومات کے مطابق وہاں پر جانور کی قربانی کرنے کی بھی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ رواں سال کے دوران قبلہ اول پر دھاووں کی پالیسی کے تحت اب تک تقریبا دس ہزار یہودی شرپسند قبلہ اول کی بے حرمتی کا ارتکاب کر چکے ہیں۔ صہیونی ریاست کی قبلہ اول پر دھاوے کی پالیسی دو دھاری تلوار کی طرح ہے۔ ایک طرف یہودی اشرار کو مسلمانوں کے تیسرے مقدس ترین مقام کی بے حرمتی کی ریاستی سرپرستی میں کھلی چھوٹ حاصل ہے اور دوسری طرف مسلمان نمازیوں کی مسجد اقصیٰ میں آمد پر قدغنیں لگا کر ان کی مسجد اقصیٰ تک رسائی مشکل بنائی جاتی ہے۔ حالیہ ایام میں قابض پولیس نے 18سال سے 50 سال کے درمیان کی عمر کے فلسطینیوں پر مسجد اقصیٰ میں داخلے اور جمعہ کی نماز ادا کرنے پر پابندی عاید کردی تھی۔

مکانات مسمار کرنے کی پالیسی

دائیں بازو کی نئی اسرائیلی حکومت فلسطینیوں کے مکانات اور دیگر املاک کی مسماری کی پالیسی پر عمل درآمد کو تیز کرنے کے لیے دن رات سرگرم ہے۔ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں رواں سال کے دوران اب تک تقریباً 50 گھر، اداروں کے دفاتر اور دکانیں گرائی جا چکی ہیں۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ پچھلے سال اسرائیلی حکام نے صرف مقبوضہ بیت المقدس میں فلسطینیوں کےً 600 مکانات گرائے تھے۔

یروشلم شہر میں’اونروا‘کی سرگرمیوں پر پابندی

قابض اسرائیلی حکومت سمجھتی ہے کہ یروشلم شہرمیں اقوام متحدہ کے فلسطینی پناہ گزینوں کی بہبود کے ذمہ دار ادارے’اونروا‘ کی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے، کیونکہ یہ قابض ریاست کی خودمختاری کے تحت بین الاقوامی خودمختاری کا استعمال کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قابض حکومت ریلیف ایجنسی کی طرف سے فراہم کردہ تمام خدمات کو ختم کرنا چاہتی اور اسے یروشلم شہر سے ہٹانا چاہتی ہے۔

اس حوالے سے  القدس میں قائم اسرائیل کی نام نہاد بلدیہ نےاپنے وژن کے نفاذ کے لیے ایک منصوبہ پیش کیا جس میں درج ذیل نکات پیش کیے گئے ہیں۔

۱۔ ’اونروا‘ کےتمام اداروں کو بند کرنے، اس کی تمام عمارتوں کو ضبط کرنے اور انہیں میونسپل عمارتوں میں تبدیل کرنے کی سفارش پیش کی گئی۔

۲۔ یروشلم شہر میں پناہ گزین کیمپوں [شعفاط کیمپ اور قلندیہ پناہ گزین کیمپ] کا نام حذف کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

’اونروا‘ کی ملکیت والے اسکولوں پر قبضہ کرنےکا فیصلہ کیا گیا۔ خیال رہے کہ ’اونروا‘ کے زیر اہتمام القدس میں شعفاط پناہ گزین کیمپ میں لڑکیوں کے دو اسکول اور لڑکوں کے لیے ایک اسکول قائم ہے جن میں 1200 طلبہ اور طالبات زیر تعلیم ہیں۔ وادی الجوز میں لڑکوں کے لیے ایک اسکول ہے جس میں 150 طلبہ پڑھتے ہیں، سلوان میں گرلز اسکول میں 100 طالبات  اور صور باہر میں قائم اسکول میں 350 طلباء پڑھتے ہیں۔

۳۔’اونروا‘ کے ساتھ منسلک سماجی نگہداشت اور صحت کے اداروں پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان میں بڑا طبی مرکز، کھیلوں کا مرکز، شعفاط کیمپ میں بچوں اور خواتین کے امور کا مرکز، کفر عقب میں پیشہ ورانہ بحالی کا ادارہ اور باب الساھرہ میں پناہ گزینوں کا کلینک شامل ہیں جن پر قبضے کا فیصلہ کیا گیا۔

گرفتاریاں اور علاقہ بدری

اسرائیلی ریاست ایک سوچے سمجھے پلان کے تحت بیت المقدس کے باشندوں کو گرفتار کرنے اور انہیں شہر بدر کرتی ہے۔

رواں سال کے آغاز سے اب تک 300 سے زائد حراست میں لیے گئے یا انہیں شہر سے بے دخل کردیا گیا۔

اسرائیلی فوج کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ اور القدس کا دفاع کرنے والے فلسطینی مرابطین کو نشانہ بنائے۔ یہی وجہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کے نمازیوں اور مرابطین کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ سال 2022ء کے دوران اسرائیلی فوج اور پولیس نےبیت المقدس سے 900 سے زیادہ فلسطینیوں کو گرفتار اور 850 افراد  کوشہر بدر کیا گیا۔

ناکوں اور چوکیوں کا جال

مقبوضہ بیت المقدس شہرکے چپے چپے پراسرائیلی فوج اور پولیس نے چوکیاں اور ہنگامی ناکے لگا رکھے ہیں۔ جن سے گذرنے والے فلسطینی نمازیوں کو قبلہ اول میں نماز کے لیے جانے سے روکا جاتا ہے۔ ان چوکیوں پر فلسطنیوں کی منظم شناخت پریڈ کی جاتی ہے۔ مسجد اقصیٰ کے اطراف میں اس طرح کی 65 چوکیاں قائم ہیں۔

املاک پر قبضہ

بیت المقدس کے باشندوں پر دباؤ ڈالنے اور انہیں شہربدر کرنے کے لیے املاک کی ضبطی مہم کے ساتھ ان پر کمر توڑ ٹیکس لگائے جاتے ہیں۔ القدس کے تقریبا چالیس شہریوں سے فلسطینی اتھارٹی یا کسی دوسری فلسطینی تنظیم سے فنڈز لینے کے الزام میں 2 ملین ڈالر سے زیادہ کی املاک ضبط کی گئیں۔170 باشندوں کو اس طرح کے بے سروپا الزامات کے تحت 26 ملین ڈالر جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔

مسجد اقصیٰ اور القدس پر حملے

 مسجد اقصیٰ اور یروشلم شہر کو نشانہ بنانے کے واقعات میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ ان حملوں سے القدس میں عوامی اور مزاحمتی غم وغصےکا آتش فشاں کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ ایسے میں بیت المقدس کے باشندوں کی آخری امید مسلم امہ ہے۔ انہیں توقع ہے کہ مسلم دنیا مسجد اقصیٰ اور القدس کے دفاع کے ساتھ غاصب صہیونی ریاست کے منظم جرائم اور مکروہ عزائم کا مقابلہ کرنے کے لیے حرکت میں آئے گی۔

صہیونی دشمن کی تیاریاں

مغربی کنارے میں صیہونی فوج کو موجودگی کو مضبوط کرنے کے لیے 7 بٹالین فوج تعینات کی گئی ہے۔ ان میں دو لڑاکا بٹالین  ہے۔ مغربی کنارے  تعینات ایک بٹالین کی ذمہ داری  گاڑیوں اور افراد کی چیکنگ ہے۔

سنہ 1967ء کی سرحدوں کے اندر چار دفاعی بٹالین براہ راست القدس میں تعینات فوج کے ساتھ رابطے رہتی ہیں ۔ پولیس اور خصوصی یونٹوں کے اہلکاروں کی بڑی تعداد اس کے علاوہ ہے جو القدس میں سرگرم ہے۔

ان تمام باتوں کے باوجود ہماری قوم ان پالیسیوں کو ناکام بنانے کے لیے ثابت قدمی سے کھڑی ہے۔ دشمن کی سازشوں کا مقابلہ قابض ریاست کی غاصبانہ پالیسیوں کے خلاف بغاوت اور وسیع پیمانے پر سول نافرمانی کے ذریعے حاصل ہوگا۔ اس ثابت قدمی نے صہیونی فوج اور سکیورٹی اداروں کے درمیان اختلافات بھی پیدا کر دیے۔

مختصر لنک:

کاپی