ہزاروں اسرائیلیوںنے ہفتے کو تل ابیب کی سڑکوں پر مسلسل بارہویں ہفتےحکومت کی طرف سے متنازع عدالتیاصلاحات کے مظاہرہ کیا۔
اسرائیلیوزیراعظم بنجمن نیتن یاھوعدالتی اختیارات اور ججوں کے اختیارات کو محدود کرنے کےلیے ایک ترمیم لانے کی کوشش کررہے ہیں جب کہ اسرائیل میں عوامی حلقوں میں اس ترمیمکو جمہوری اقدار اورعدالتی آزادیوں پرحملہ قرار دیتےہیں۔
نتین یاھو کی طرفسے لائے گئے عدالتی اصلاحات سے متعلق ترمیمی بل پرمنگل کے روز پہلی رائے شماری کیگئی۔ پہلی شق سپریم کورٹ کو بنیادی قوانین میں کسی بھی ترمیم کو منسوخ کرنے کے لیےنااہل قرار دیتی ہے جسے اسرائیل کے آئین کے برابر سمجھا جاتا ہے۔
دوسرے آرٹیکلمیں "استثنیٰ” کی شق شامل کیگئی ہے جو پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے کچھ فیصلوں کو پارلیمنٹ کے 120 ارکان میں سے61 ووٹوں کی سادہ اکثریت سے کالعدم کرنے کی اجازت دیتی ہے۔
تل ابیب میںمظاہرین نے اسرائیلی پرچم اٹھائے "جمہوریت، جمہوریت” اور "ہم ہتھیارنہیں ڈالیں گے” کے نعرے لگائے۔
نیتن یاہو کیقیادت میں دسمبر2022ء میں قائم ہونےوالی مخلوط حکومت میں دائیں بازوکے گروپ اور انتہا پسند مذہبی جماعتیں شامل ہیں۔اس حکومت نے جنوری کے شروع میں عدالتی نظام میں ترامیم اور اصلاحات کے مسودے کااعلان کیا تھا۔
اس منصوبے کےمخالفین کا خیال تھا کہ اس کا مقصد سیاسی اتھارٹی کے حق میں عدالتی اختیار کوکمزور کرنا ہے۔ انہوں خبردار کیا کہ یہ جمہوری نظام کے لیے خطرہ ہے۔
تاہم نیتن یاہواور وزیر انصاف یاریو لیون کا خیال ہے کہ عدالتی نظام میں ترمیم کرنا طاقت کیشاخوں میں توازن بحال کرنے کے لیے ایک ضروری قدم ہے کیونکہ وزیر اعظم اور ان کےاتحادی سپریم کورٹ کے ججوں کو سیاست زدہ سمجھتے ہیں اور منتخب ارکان کنیسٹ سے جج زیادہ اختیارات رکھتے ہیں۔
اب تک ایسا لگتاہے کہ مظاہرے جو عام طور پر حکومت کی پالیسی کی مذمت کرتے ہیں، نیتن یاہو اور ان کیاکثریت کو اپنے مقصد سے نہیں روک سکیں گے۔
یائرلپیڈ کی قیادت میں حزب اختلاف نے بارہا نیتن یاہوپر الزام لگایا ہے کہ وہ اس ترمیم کے ذریعے اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔