کل منگل کو اسرائیلیسپریم کورٹ نے مقبوضہ بیت المقدس کے مشرق میں واقع خان الاحمر گاؤں سے بے دخلی اورفلسطینیآبادی کو بے گھر کرنے کے معاملے پر غور کے لیے آئندہ یکم مئی کی سماعت کا فیصلہ کیا۔ اس حوالے سے اسرائیلی سپریم کورٹ میںحکومت کی جانب سے اپنا جواب جمع کرانےکا اعلان کیا گیا ہے۔
یہ بات صہیونی ججنوم سولبرگ کی طرف سے جاری کردہ اس فیصلے میں سامنے آئی ہے، جس میں حکومت کی جانبسے اس "پیچیدہ اور انتہائی حساس” کیس میں اپنا تفصیلی جواب ترتیب دینےکے لیے جون کے اوائل تک دینے کی درخواست دینے کی بات کی گئی تھی۔ حکومت کے الفاظ میںاس بات پر زور دیا گیا تھا کہ حکومت کا ارادہ ہے کہ وہ خان الاحمر میں فلسطینیوںکو بے دخل کرنے کے لیے آپریشن کرسکتی ہے۔
جسٹس سولبرگ کے فیصلےکے مطابق جس میں خیال کیا گیا کہ التوا کی درخواستوں میں "ریاست کا طریقہ کار”ناقابل قبول ہے۔ اسرائیلی حکومت خان الاحمر کے انخلاء اور نقل مکانی کی تاریخ کےحوالے سے سپریم کورٹ میں اپنا جواب جمع کرانے کی پابند ہوگی۔ خان الاحمر نے اگلےاپریل تک حکومت نے اس سلسلے میں عدالت میں اپنا جواب جمع کرانے میں تاخیر کیدرخواست کی۔
اگر حکومت اگلےاپریل تک سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی درخواست کا جواب نہیں دیتی ہے تو عدالت اسدرخواست کو قبول کرتے ہوئے اپنے مشروط حکم کو حتمی فیصلے میں تبدیل کرنے کا ارادہرکھتی ہے، جس میں 5 ستمبر 2018ء کو جاری کیے گئے عدالتی حکم پر عمل درآمد کامطالبہ کیا گیا ہے۔
عدالت نے یہ بھیحکم دیا کہ حکومت عدالتی عمل کے قانونی اخراجات کی ذمہ دار ہوگی، جس کا مقصد مسماریاور بے دخلی کے احکامات پر عمل درآمد کو آگے بڑھانا ہے جس کی رقم 20000 شیکل ہے۔