البرغوثی نے کہا: خواتین اور مرد قیدیوں پر جارحیت کے مظاہرے بن گویر کی دھمکیوں کا نفاذ اور ایک نئی حقیقت مسلط کرنے کی کوشش ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ جیلوں میں قید فلسطینی مزاحمت کی علامت ہیں۔ وہ اس حقیقت کو قبول نہیں کریں گے اور قابض حکام کے جابرانہ اقدامات قیدیوں کے عزم اور اتحاد کے سامنے پسپا ہوں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ "نیتن یاہو کو قیدیوں کے معاملے کی حساسیت کا اندازہ نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ قیدیوں پر ظلم و ستم سے یروشلم کے ہیروز کی طرف سے لگنے والے تھپڑ کے اثرات کم ہو جائیں گے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ "ان حالات میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی اداروں کا حقیقی کردار اہم ہے، انہیں اپنا کردار منصفانہ طریقے سے ادا کرنا چاہیے، اور اسرائیل کی بربریت اور قیدیوں سے متعلق تمام حقوق اور بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کو نمایاں کرنا چاہیے۔”
حماس نے تصدیق کی ہے کہ قابض فوج اور جیل حکام نے جیلوں میں قیدیوں کے خلاف تشدد کی کاروائیوں میں اضافہ کیا، جن میں سے تازہ ترین آج صبح دامون جیل میں خواتین قیدیوں پر تشدد، انفرادی سیل میں بند کرنا اور لوٹ مار کرنا شامل ہے۔
اسرائیل نے "دامون” جیل میں 29 خواتین کو حراست میں رکھا ہوا ہے جن میں تین نابالغ اور 7 مائیں بھی شامل ہیں۔
2015 سے قید میسون موسی سب سے معمر خاتون قیدی ہیں، انہیں 15 سال کی سزا سنائی گئی ہے۔ شروق دویات اور شاتیلا ابو عیاد دو قیدیوں کو 16 سال کی سب سے زیادہ قید کا سامنا ہے۔
قیدیوں میں دو خواتین شروق البدن اور رغد الفنی انتظامی نظربند ہیں جبکہ 6 زخمی ہیں۔
زخمیوں میں ایک قیدی اسراء جابیس صحت کے شدید مسائل سے دوچار ہے۔ 2015 میں قابض فوج کی جانب سے اس کی گاڑی پر فائرنگ اور آتشزدگی کے نتیجے میں اس کے جسم کا 60 فیصد حصہ جھلس گیا تھا۔