جمعه 15/نوامبر/2024

یورپ میں موجود فلسطینی بھی اسرائیلی انتقام سے غیرمحفوظ

بدھ 25-جنوری-2023

اسرائیلی غاصب ریاستکے سیاست دانوں، مبصرین اور حکام نے یورپ میں فلسطینی کارکنوں کی طرف سے شروع کیگئی مہم پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے، جس میں بنجمن نیتن یاہو کی حکومت کےوزراء کے نسل پرستانہ بیانات کو نمایاں کیا گیا تھا۔

سوموار کوعبرانیاخبار ’معاریو‘ کی طرف سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ یورپی- فلسطینیکمیونیکیشن فورم – یوروپل (لندن میں قائم ) کی مہم "اسرائیل کی نسل پرستی”پر مرکوز تھی، جس کی نگرانی قابض حکومت کے اہلکاروں کے بیانات کے ذریعے کی جا رہیہے۔ یہ نسل پرستانہ بیانات اس سال کے اوائل میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کےاتحاد کے ذریعے تشکیل پانے والی حکومت کی طرف سے دیے گئے تھے۔

اخبار نے نشاندہیکی کہ قابض ریاست جس چیز سے ڈرتی ہے وہ ایک انسانی حقوق کی مخالفت کرنے والی نسلپرست ریاست کے طور پر اپنی شبیہ کو برقرار رکھنا ہے۔

معاریو کی رپورٹپر تبصرہ کرتے ہوئے یوروپل فورم کے سربراہ زاھرالبیراوی نے کہا کہ تل ابیب”برسوں سے فورم کے کام کو روکنے اور اسے دھمکیوں اور پابندیوں کے ذریعے محدودکرنے کی کوشش کر رہا ہے۔”

زاھر البیراوی نےقدس پریس کے ساتھ اپنے انٹرویو میں کہا کہان کی مہم کے خلاف کسی بھی اسرائیلی سرگرمی کا انجام مغربی ممالک کے اس یقین کیوجہ سے "ناکامی” ہے کہ "فلسطینی حقوق کے دفاع میں ہمارا کام 100 فیصدقانونی ہے”۔

انہوں نے وضاحت کیکہ "مغرب کے بہت سے سیاست دان اور اراکین پارلیمنٹ جانتے ہیں کہ قابض ریاستدائیں بازو کی انتہا پسندی کی طرف بڑھ رہی ہے اور یہ کہ بنجمن نیتن یاہو کی حکومتکے بیانات ان کے لیے شرمندگی کا باعث ہیں۔ وہ اب اس کا دفاع یا اس سے نمٹنے کےقابل نہیں رہے”۔

اسرائیلی دھمکیوںکا مقابلہ کرنے اور فورم کی سرگرمیوں کو کمزور کرنے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ "یہمزید سرگرمیوں کے ذریعے کیا جاتا ہے جو یورپ میں قابض ریاست کی نسل پرستی کو بےنقاب کرتے ہیں۔ ہم یورپ میں اپنے قومی حقوق کو برقرار رکھنے اور قضیہ فلسطین کواجاگر کرنے کی جدو جہد کرتے ہیں۔

انہوں نے یکجہتیتنظیموں، انسانی حقوق کے اداروں اور پارلیمانی جماعتوں اور بلاکس کے ساتھ تعاوناور ہم آہنگی کی ضرورت پر زور دیا جو فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کرتے ہیں اوراسرائیلکے ناجائز تسلط کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

البیراوی نے کہاکہ اسرائیل "چاہتا ہے کہ فلسطین کا دفاع کرنے والے کارکن اور سیاست دان دنیاسے غائب ہو جائیں اور وہ کسی ایسے شخص کی موجودگی کو برداشت نہیں کر سکتا جو دنیاکو فلسطینیوں کے خلاف اس کے جرائم کی یاد دلائے”۔

مختصر لنک:

کاپی