اسرائیلی پارلیمان(کنیسٹ) نے 1948 کی سرزمین کے ان فلسطینی قیدیوں کی شہریت یا رہائش کو منسوخ کرنےکے بل کی منظوری دے دی جن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے ایک کارروائی کےبدلہ میں فلسطینی اتھارٹی سے معاوضہ وصول کیا تھا۔
اسرائیلی نشریاتیادارے کے مطابق اس قانون کے مطابق یہ ممکن ہے کہ کسی بھی "اسرائیلی عرب شہری”کی شہریت منسوخ کر دی جائے اور اس کی سزا کے اختتام پر اسے فلسطینی اتھارٹی کےحوالے کر دیا جائے اگر اس نے کوئی دہشت گردانہ کارروائی کی ہے۔ اس مسودہ قانون کےمطابق شہرت کی منسوخی کو اس کے فعل کا بدلہ شمار کیا جائے گا۔
اسرائیلی کنیسٹ میںیہ بال حکومتی اتحادی جماعتوں ’’لیکوڈ‘‘، ’’ریلجیس زائیون ازم‘‘ ، ’’اوٹزما یہودیت‘‘اور ’’ یونائیٹڈ توراہ جواازم‘‘ ، اسی طرح دو اپوزیشن جماعتوں لاپڈ کی سربراہی میں’’یش عتید‘‘ اور بینی گانٹز کی سربراہی میں ’’ نیشنل کیمپ‘‘ نے پیش کیا ہے۔
بلوں کو داخلہاور ماحولیاتی تحفظ کی کمیٹیوں کو منتقل کر دیا جائے گا تاکہ انہیں ان کی پہلی ریڈنگکے لیے تیار کیا جا سکے۔ بلوں کے متن میں کہا گیا ہے کہ یہ بل آپریشن کرنے کے لیےتنخواہ وصول کرنے اور شہریت یا رہائش کے حق کے درمیان ایک واضح تعلق کی تجویز کرتاہے۔
71 ارکان نے بل کی حمایت کی اور 9 ارکان نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا۔۔کنیسٹ رکن احمد طیبی نے کہا کہ یہ اپنی بنیادوں سے نسل پرستانہ قانون سازی ہے۔ دوروز قبل کنیسٹ کمیٹی نے ان بلوں کے لیے قانون سازی کے اقدامات کو آگے بڑھانے کیمنظوری دی تھی۔
منگل کے روز کنیسٹکی پلینری نے پہلی ریڈنگ میں ہنگامی ضابطوں کی توسیع کی منظوری دی جو مقبوضہ مغربیکنارے میں بستیوں پر اسرائیلی قانون نافذ کرتے ہیں۔ اس بل کو نسل پرستی کے قانونکے نام سے جانا جاتا ہے۔ بل کی حکومتی اتحاد اور اپوزیشن کے 58 کنیسٹ اراکین نےحمایت کی اور 13 نے اس کی مخالفت کی۔
یہ ابتدائی منظوری1948 کی سرزمین میں قیدی کریم یونس کی رہائی کے چند دن بعد ہوئی ہے، قابض وزیرداخلہ نے کریم یونس سے اپنی "اسرائیلی قومیت” کو واپس لینے کی درخواست کیتھی۔