بیت المقدس میںاسلامی اوقاف کے محکمے کے ڈپٹی ڈائریکٹر الشیخ ناجح بکیرات نے کہا ہے کہ مسجد اقصیٰایک بہت بڑی آزمائش میں ہے، کیونکہ اس کے خلاف ایک سے زیادہ مرتبہ جارحیت کا سامناکرنا پڑا۔ ان میں سب سے نمایاں "بین گویر” جارحیت اور یہودی تعطیلات ہیںجن کے ذریعے بائبل کے گروہ الاقصیٰ میں تلمودی رسومات کی بڑی تعداد کو جائز قرار دینےکی کوشش کرتے ہیں۔
بکیرات نے”فلسطینی انفارمیشن سینٹر” سےبات کرتے ہوئے کہا کہ مسجد اقصیٰ کے خلافجارحیت صہیونی حکومت کی طرف سے پوری عرب اور اسلامی دنیا کے لیے ایک پیغام ہے۔
انہوں نے واضح کیاکہ موجودہ جارحیت غیر مسبوق واقعہ ہے۔انہوں نےاس بات پرزور دیا کہ قابض حکومت اورانتہا پسند گروہ مسجد اقصیٰ کو ایسے واقعات کا منظر بنانا چاہتے ہیں جس میں آئےروز جھڑپیں اور لڑائیاں بڑھتی جائیں۔
انہوں نے کہا کہمسجد اقصیٰ اور فلسطینیوں پر آئے روز ہونے والے حملوں میں تیزی آنے والے واقعات کےنتیجے میں مذہبی جنگ کی چنگاری بھڑکنے والی ہے۔
"بکیرات "نے کہا کہ مسجد اقصیٰ میں جو کچھ ہو رہا ہےاس سے تین نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ پہلایہ کہ مسجد اقصیٰ کے خلاف جارحیت میں اضافہ ہے تاکہ اس میں پیش کی گئی حقیقت کومکمل طور پر تبدیل کر کے اسے مقدس اور یہودیوں کی حاکمیت تحت کردیا جائے بنایا جاسکے۔
انہوں نے واضح کیاکہ دوسرا نتیجہ صیہونی حکومت کی جانب سے نہ صرف بیت المقدس یا فلسطینیوں کے لیے چیلنجکا راستہ ہے بلکہ پوری اسلامی اور عرب دنیا کے لیے چیلنج کا پیغام ہے۔
بکیرات کے مطابقتیسرا ٹریک القدس کو مسجد اقصیٰ کی قیمتپر یہودیوں کے مقامات اور مقدسات میں تبدیل کرکے القدس کو یہودی دارالحکومت بنانےکی قابض فوج کی کوششوں کو عملی جامہ پہنانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عرباور اسلامی دنیا کو اس خون بہنے کو روکنے کی ضرورت ہے جس نے مسجد اقصیٰ کو متاثر کیاہے۔