جمعه 15/نوامبر/2024

القدس کے بیٹےصلاح الحموری کی شہر بدری اسرائیل کا ریاستی جرم

منگل 20-دسمبر-2022

اسرائیلی سیاسی،عسکری اور سکیورٹی فیصلے کے تحت جس کی نگرانی قابض حکومت میں وزیر داخلہ آئیلٹ شیکڈکرتی ہیں القدس کے وکیل صلاح الحموری اس شہر سے بہت دور فرانس میں رہیں  گے، حالانکہ وہ القدس کے بیٹے ہیں اور اسی شہرمیں وہ پیدا ہوئے اور وہیں پلے بڑھے۔

انسانی حقوق کےکارکن کے خلاف نسل پرستانہ فیصلہ اس وقت آیا جب اسے دس ماہ قبل اسرائیلی قابض حکامکی جیلوں میں بغیر کسی مقدمے کے انتظامیطور پر حراست میں لیا گیا تھا۔ 37سالہ حموری  پر قابض ریاست کی طرف سے عائدکیے گئے فیصلوں کے بعد یہ اقدام کیا گیا ہے۔

ان فیصلوں میں سبسے نمایاں اسے مقبوضہ مغربی کنارے میں داخل ہونے سے روکنا، اس کی بیوی اور بچوں کوفرانس جلاوطن کرنا، پھر اسے گرفتار کرنا اور فرانس ڈی پورٹ کرنا۔ اس کے علاوہ اسپر قابض فوج کی طرف سے الزام عاید کیا گیا کہ وہ عوفرجیل میں قیدیوں کی حمایت کرتےرہے ہیں۔

قبل ازیں فرانسنے اسرائیل کی طرف سے وکیل صلاح الحموری کو ملک بدر کرنے کے فیصلے پر عدم اطمینانکا اظہار کیا تھا، جنھیں بغیر کسی الزام کے حراست میں لیا گیا تھا۔ انہوں نے اسبات پر زور دیا تھا کہ وہ القدس میں معمول کی زندگی گزارنے کے قابل ہوں۔

فرانسیسی وزارتخارجہ نے کہا کہ الحموری یروشلم میں پیدا ہوئے اور وہیں رہتے ہیں، اس بات کا ذکرکرتے ہوئے کہ اس کی بیوی اور بچے القدس میں اس کے پاس جاسکیں۔ساتھ ہی فرانس نے کہاکہ وہ اعلیٰ سطح پر صورتحال کا قریب سےجائزہ لے رہا ہے۔ "

قابض ریاست کی نااہلی

قیدیوں کے امورکے ماہرمنتصر الناعوق نے تصدیق کی کہ القدس کے قیدی صلاح الحموری کو ملک بدر کرنےاور اس کی القدسی شناخت واپس لینے کا فیصلہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو قیدیوں کو محکومبنانے یا ان کے عزم کو کمزور کرنے میں قابض ریاست کی ناکامی ثابت کرتا ہے۔”

الناعوق نےمرکزاطلاعات فلسطین کو بتایا یہ فیصلہ اور اس پر عمل درآمد قیدیوں کو ان کی سرزمیناور لوگوں سے جلاوطن کرکے نشانہ بنانے کے دائرے میں توسیع کے تناظر میں آیا ہے۔ کیونکہقابض ریاست قیدیوں کی حیثیت اور قابض دشمن کا مقابلہ کرنے کی راہ میں لوگوں میں انکی موجودگی کی اہمیت کو جانتا ہے۔

انہوں نے مزیدکہا کہ اس فیصلے کا مقصد مقدس شہر کو بااثر شخصیات سے خالی کرنا، اس کے مقدس فلسطینیتشخص کو مٹانے کی کوشش کرنا اور اس میں جڑی فلسطینیوں کی موجودگی کو نشانہ بناناہے۔”

انہوں نے عندیہ دیاکہ یہ فیصلہ عالمی برادری کے ماتھے پر داغ ہے جو نسل پرستانہ اور غیر انسانی قبضےکو ختم کرنے میں ناکام رہی۔

انہوں نے مزیدکہا کہ حموری کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ فلسطینی رہ نماؤں کو مرج الزہور میں جلاوطنکرنے کے فیصلے کی 30 ویں برسی پر آیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ عالمی برادری قابضریاست پر لگام لگانے اور اس کا ازالہ کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔

ایک جرم!

اپنی طرف سےانسانی حقوق کے کارکن صلاح عبدالعطی نے کہا قابض حکام کی جانب سے القدس کے قیدیصلاح الحموری کو ملک بدر کرنا جو کہ ایک وکیل اور انسانی حقوق کے کارکن ہیں ایک نئینوعیت کا جرم ہے اور بین الاقوامی احتساب کا متقاضی ہے۔

عبدالعطی نے فلسطینیانفارمیشن سینٹر کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں مزید کہا کہ قابض ریاست کی طرف سے القدسکے قیدی صلاح الحموری جو ایک وکیل اور انسانی حقوق کے کارکن ہیں کی ملک بدری ایکبے مثال جرم ہے اور اس میں بہت بڑا خطرہ شامل ہے۔ کیونکہ یہ مقبوضہ فلسطینی شہریاور سماجی کاموں کے خلاف مہمات میں اضافے کے تناظر میں آتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملکبدری کا فیصلہ قانون کی کم ترین دفعات اور بین الاقوامی قانونی حیثیت کی صریح خلافورزی کی نمائندگی کرتا ہے، خاص طور پر چوتھے جنیوا کنونشن کی شقوں کے آرٹیکل (49)اور سلامتی کونسل کی قراردادوں (نمبر 605/1987، قرارداد نمبر۔ 607/1988، قراردادنمبر 608/1988، قرارداد نمبر 636)/1989، قرارداد نمبر 641/1989،  قراردادنمبر 681/1990، اور قرارداد نمبر 694/1991، اور قرارداد نمبر 627 /1992، نیزقرارداد نمبر 799/1992) جس میں فلسطینی شہریوں کی بے دخلی اور ملک بدری کی پالیسیوںکی مذمت کی گئی کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

الحموری کون ہے؟

صلاح الحموری ایکوکیل اور انسانی حقوق کے محافظ ہیں اور وہ قیدیوں کی دیکھ بھال اور انسانی حقوق کےادارے "ضمیر” کے ملازمین میں سے ایک تھے۔ان کی والدہ فرانسیسی ہیں اوروالد فلسطینی ہیں۔ وہ بیت المقدس شہر سے ہیںجہاں وہ پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے ایک فرانسیسی خاتون سے شادی کی اور دو بچوں کےباپ ہیں۔ انہیں قابض حکام نے اس کے خلاف منظم مہم کا نشانہ بنایا، جس کا آغاز اس کیانتظامی اور من مانی حراست سے ہوا۔ ان کےفون کی جاسوسی کی گئی اور ان کی نگرانی کی۔

الحموری کو اسرائیلیریاست میں 2005ء اور 2011ء کے درمیان مبینہ طور پر اسرائیلی قابض ریاست کے سابق چیفربی اور الٹرا آرتھوڈوکس شاس پارٹی کے بانی عودیہ یوسف کے قتل کی کوشش میں حصہ لینےکے الزام میں قید کیا گیا تھا۔

اسے 2011 میں قیدیوںکے تبادلے کے ایک حصے کے طور پراس کی سزا ختم ہونے سے کچھ دیر پہلے رہا کیا گیا تھا۔اس معاہدے میں حماس کے ہاں جنگی قیدی بنائے گئے اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کیرہائی عمل میں لائی گئی تھی۔

17 اکتوبر 2021کو اسرائیلی وزارت داخلہ نے حموری کی رہائش گاہ کو سیل کر دیا، اور پھر اسے زبردستیفرانس بھیج دیا۔

مختصر لنک:

کاپی