کینسر کی آخری سٹیج پر پہنچے فلسطینی قیدی ناصر ابو حمید کو ہنگامی طور پر اتوار کے جیل سے سول ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔
ابوحمید کو سول ہسپتال منتقل کرنے اور ان کی رہائی کا مطالبہ کائی دنوں سے کیا جارہا تھا کہ ان کی حالت مسلسل بگڑتی جارہی ہے۔ حتی کہ ان کا جسم نو فیصد تک بے حس و حرک ہو چکا ہے۔ لیکن اسرائیلی قابض اتھارٹی نے بد ترین بے رحمی کا ؐطاہر کرتے ہوئے انہیں متواتر جیل میں رکھا۔
50 سالہ ابو حمید بول سکتے ہیں ، کھا سکتے ہیں اور ہن ہی خود ہلجل سکتے ہیں۔ انہیں اسرائیلی قابض فورسز تقریبا بیس سال سے جیل میں قید کر رکھا ہے۔
اگست 2021 میں جب سے ابو حمید کو کینسر کی آخری درجوں کی تشخیص ہو ئی ان کی صحت ہر آنے والے دن میں بگڑتی جارہی ہے۔ لیکن اسرائیلی جیل حکام اور قابض اسرائیلی اتھارٹی نے انہیں علاج کی ضروری سہولتوں سے محروم رکھنے کی جان بوجھ کر کوشش کی۔
رواں سال ان کی حالت بہت قابل رحم ہو گئی مگر اہل خانہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطالبات کے باوجود انہیں جیل سے ہسپتال منتقل کیا گیا اور نہ ہی ان کی رہائی کا مطالبہ مانا گیا۔
اتوار کے روز فلسطینی کی قیدیوں سے متعلق سوسائٹی نے خبر دی ہے کہ ان کی حالت انتہائی بگڑنے کے بعد سول سپتال منتقل کیا گیا ہے۔چند روز قبل ان کے وکیل کریم عجویٰ نے بتایا کہ کینسر کا مرض ان کے جسم میں تیزی سے پھیل گیا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کا بایاں پھیپھڑا ناکارہ ہو گیا ہے۔
ابو حنٓمید کے بھائی محمد کی طرف سے وکیل کو بتایا گیا تھا کہ جسم میں کینسر کے پھیل جانے کی وجہ سے پھیپھڑوں میں پانی بھر گیا ہے اور ابو حمید کے لیے حرکت کرنا بھی ممکن نہیں رہا ہے۔
جبکہ نظام تنفس متاثر ہونے کی وجہ سے سانس لینا بھی دو بھر ہو گیا ہے۔ اس صورت حال میں ابو حمید کے بھائی نے عرب اور مقامی انسانی حقوق کے اداروں سے اس معاملے میں مداخلت کی اپیل کی تھی تاکہ کینسر کے مریض اس قیدی کو آخری سٹیج پر ہی سہی ہسپتال بھیجا جائے۔