چهارشنبه 30/آوریل/2025

مذہبی یہودیوں کی "نیٹزہ یہودا” بٹالین "مذہب” کی آڑ میں جرم

اتوار 27-نومبر-2022

حریدی برادری اوراسرائیلی وزارت دفاع کے درمیان بھرپور تعاون جاری ہے۔ اس تعاون کا عملی نتیجہ”نیتزہ یہودا” نامی ایک بٹالین ہے جس کا نام حالیہ دنوں میں فلسطینیوںکے خلاف بڑے پیمانے پر ہونے والے جرائم کی وجہ سے زیادہ عام ہوا ہے۔

"نیتزہ یہودا” بٹالین قابض فوج کی سب سے انتہا پسند اوربنیاد پرست بٹالین ہے۔ اسرائیلی فوجی ماہرین اسے دائیں بازو اور مذہبی بنیاد پرست بٹالینکے طور پر بیان کرتے ہیں۔ اس کے ریکارڈ میں جرائم اور انسانی حقوق کی پامالیوں کیایک طویل فہرست ہے جو اسے ایک انتہا پسند اور دہشت گرد بٹالین میں تبدیل کر دیتیہے۔ یہ بٹالین سے ملیشیا میں بدل گئی جسےاسرائیلی فوج کی سرپرستی میں فلسطینیوں کےخلاف جرائم کی مکمل آزادی حاصل ہے۔یہ فوج اور اسرائیلی عدالتوں کے اندر احتساب سےتقریباً مکمل طور پر محفوظ ہے۔

اس میں انتہاپسند نظریاتی عقائد اور عرب اور فلسطین مخالف بائبلی نظریات رکھنے والے آباد کاروںکے علاوہ انتہائی آرتھوڈوکس مذہبی کے سپاہی شامل ہیں، جو انہیں اپنے خلاف انتقامیتشدد پر عمل کرنے کے لیے اندرونی مقابلے کی طرف لے جاتے ہیں۔

"نیتزہ یہودا‘‘ بٹالین 1999 میںقائم کی گئی تھی، جیسا کی کفیر بریگیڈ کی ایک بٹالین، جس کے اہلکاروں کی تعداد 900تھی۔ یہ الٹرا آرتھوڈوکس کمیونٹی اور اسرائیلی وزارت دفاع کے درمیان قریبی تعاونپر مبنی فوجی بریگیڈ تھا۔اس کا مقصد حریدی نوجوانوں کو فوج میں بھرتی کرنا تھا۔

مذہبی بریگیڈ

مرکزاطلاعاتفلسطین کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں اسرائیلی امور کے ماہر معتصم سمارہ نے کہاکہ یہ ایک مذہبی بٹالین ہے جو مذہبی یہودیوں کو ان کے مذہبی عقائد کے مطابق فوج میںشامل ہونے کی اجازت دیتی ہے۔اس میں ابتدائی طور پر 30 فوجی شامل تھے۔ لیکن یہبرسوں کے دوران بہت پھلی پھولی اور ایک مکمل بٹالین کی حیثیت تک پہنچ گئی۔ اس کےسپاہیوں کی تعداد 1000 سے زیادہ ہے۔

انہوں نے مزیدکہا کہ پہلے اس بٹالین کو "ناحال حریدی” کے نام سے جانا جاتا تھا، جو کہتین عبرانی الفاظ "نوعار اکسزاوی ہریدی” کا مخفف ہے، جس کا مطلب ہے”پابند فوجی جوان”۔ پھر اس کا نام بدل کر "نیتزاہ یہودا” کر دیاگیا۔ جس کا مطلب ہے "ابدی یہود”۔

سمارہ کا کہنا ہےکہ بٹالین اپنی صفوں میں خواتین کو شامل نہیں کرتی۔ یہودی غذائی قوانین کے اعلیٰترین معیارات پر عمل کرتی ہے، "کوشیر” (یہودی قانون کے مطابق حلال) کواپنی خوراک کے طور پر لیتی ہے۔ ہفتے کے دن کام نہیں کرتی اور ان تمام اقدامات پرعمل کرتی ہے تاکہ مذہبی یہودیوں کی ممکنہ بڑی تعداد کو فوج میں شامل ہونے کی ترغیبدی جا سکے۔

سمارا بتاتے ہیںکہ قابض ریاست کا قانون "مرد اور خواتین شہریوں” کو لازمی فوجی خدمات کاپابند کرتا ہے، لیکن مذہبی یہودیوں کی اکثریت مذہب کے کل وقتی مطالعہ کی بنیاد پراس سروس کو انجام دینے سے انکار کرتی ہے۔ قابض ریاست کے قیام کے بعد سے ہی مذہبی یہودیوںکی اکثریت اس سروس کو انجام دینے سے انکاری ہے۔ ریاست میں ڈیوڈ بین گوریون اورالٹرا آرتھوڈوکس تحریک کے رہ نماؤں کے درمیان فوج میں حریدی نوجوانوں کی ایک بہتکم فیصد بھرتی کرنے پر اتفاق ہوا تھا۔

اس بٹالین نےقابض ریاست کے اندر انتہا پسند تحریک کے فوائدکے بارے میں کافی تنازع کھڑا کیا۔ یہ انتہا پسند گروپ اسرائیل میں آبادی کے تناسبسے تقریباً 12 فیصد ہے۔ ریاست اس تحریک کے بچوں کی عمر 18 سال سے زیادہ ہونے کےبعد بھی ان پر خرچ کرتی ہے۔ سمارا کے مطابق ان کی تعلیم، رہائش، کھانے پینے کےاخراجات حکومت کے ذمہ ہوتے ہیں۔ نیتزہ یہودا بریگیڈ ربیوں کے ایک گروپ نے قائم کیتھی تاکہ حریدی پس منظر سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو نشانہ بنایا جائے اور انہیںبھرتی کیا جا سکے۔

مقدس مشن

محقق ولید حباس کیطرف سے فلسطینی سینٹر فار اسرائیل اسٹڈیز "مدار” کے ذریعہ شائع کردہ ایکمطالعہ کے مطابق "نیتزہ یہودا اسرائیلی فوج میں ایک دائیں بازو کی، مذہبی اورباغی بٹالین ہے جو مغربی کنارے کے اندر کام کرتی ہے”۔ بٹالین بنیادی طور پررام اللہ کے علاقے اور اس کے اطراف میں کام کرتی ہے اور اس میں بھرتی کا طریقہ”یشیوا ہیسڈر‘‘ کے طرز پر چلتا ہے، جو ایک ایسا کورس ہے جو فوجی علوم کوبائبل کے مذہبی علوم کے ساتھ ملاتا ہے۔

اگرچہ یہ بٹالین1999ء میں حریدی نوجوانوں کے لیے ایک انکیوبیٹر کے طور پر قائم کی گئی تھی جنہوںنے اسکول چھوڑ دیا تھا، لیکن اس میں حریدیم کی ایک چھوٹی سی تعداد شامل ہے۔ برسوںکے دوران یہ ایک مذہبی سیاسی بٹالین میں تبدیل ہو چکی ہےاور اس میں انتہا پسند صیہونیارکان شامل ہیں۔ ہل یوتھ”، حریدی آباد کاروں اور مذہبی آباد کاروں کے علاوہدوسرے جو خواتین کے ساتھ تعلق نہیں رکھنا چاہتے اس بٹالین میں شامل ہوتے ہیں۔

حباس بتاتے ہیںکہ جو چیز اس بٹالین کو ممتاز کرتی ہے وہ ایک نظریاتی، مذہبی اور سیاسی نظریے کاکرسٹلائزیشن ہے جو اس کے سپاہیوں کو یہ یقین کرنے پر اکساتا ہے کہ فلسطینیوں پر فیصلہمسلط کرنا اور انہیں کنٹرول کرنا مذہبی طور پر ایک "مقدس” مشن ہے، نہ کہصرف ایک فوجی مشن سے منسلک۔ فوج کی کمان کی طرف سے جاری کیے گئے فیصلے میں ایک کیپٹناتمار ڈشیل نے وضاحت کی۔ وہ 2016-2018 کے درمیان "نیتزہ یہودا” بٹالینکے کمانڈر تھے۔ اس لیے کہ اس بٹالین کے زیادہ تر سپاہیوں نے پہلے بغاوت کی تھی۔اپنے خاندانوں اور ربیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور تورات کا مطالعہ کرنے میںناکام رہے۔ وہ فلسطینیوں پر "مقدس حکمرانی” میں اپنے آپ کو حد سے زیادہتشدد کا قائل قرار دیتے ہیں۔

خلاف ورزیاں اور جرائم

گذشتہ برسوں کےدوران، فلسطینیوں کے خلاف اس بٹالین کے ارکان کی طرف سے کئی خلاف ورزیوں اور جرائمکو ریکارڈ کیا گیا ہے، جن میں سے سب سے مشہور یہ ہیں:

– فلسطینی نژاد امریکی عمر اسعد (78 سال) کو 12 جنوری کو رام اللہکے شمال میں جلجلیا گاؤں کی چوکی پر طویل عرصے تک حراست میں رکھنے کے بعد، ہتھکڑیاںلگا کر اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر بدسلوکی کے بعد سخت سردی میں پھینک دیا گیا۔

پہلے تو قابض فوجنے بزرگ فلسطینی کی شہادت سے کسی قسم کے تعلق سے انکار کیا لیکن امریکی اصرار کےبعد اس نے اعتراف کیا کہ حادثے کی وجہ ’فوجی قوت کی اخلاقی ناکامی‘ ہے۔

– 24 اگست کو TikTok پلیٹ فارم پر ایکمختصر ویڈیو کلپ میں دکھایا گیا کہ بٹالین کے 3 سپاہیوں نے رام اللہ کے مغرب میں (تلمونیم) بستی کے قریب ایک فلسطینیشہری کو بری طرح مارا پیٹا اور بدسلوکی کی۔

عبرانی اخبار (ہارٹز) کے مطابق اپریل 2021 میںبٹالین کے سپاہیوں نے رام اللہ کے قریب عفرا بستی کے داخلی دروازے پر ایک فلسطینیکار کو روکا اور ڈرائیور کو جو ایک فلسطینی خاندان کو لے کر جا رہا تھا کو حکم دیاکہ وہ گاڑی روکے۔ اس نے گاڑی سڑک پر کھڑی کی اور گاڑی سے باہر نکالا۔پھراسے پاگلوںکی طرح مارنا شروع کر دیا۔

کسی بھی سزا سے محفوظ ہیں۔

عبرانی اخبار (ہارٹز) نے وضاحت کی ہے کہ”نیتزا یہودا” بٹالین ایکباغی بٹالین ہے اور اسے آبادکار رہ نماؤں اور مذہبی صہیونی ربیوں سے اس کے احکاماتموصول ہوتے ہیں جو فوج کی کمان سے وابستہ ہونے کے بجائے مسلسل اس کے اڈے کا دورہکرتے ہیں۔ حد سے زیادہ اور بلا جواز تشدد کے استعمال، اور فلسطینیوں پر حملے سےثابت شدہ مقدمات کے باوجود یہ گروپ اور اس کے عناصر سزا سے محفوظ ہیں۔

بلاجواز تشدد کےاستعمال کے مقدمات کے ثبوت کے باوجود ، فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی ،غیر ملکیصحافیوں کے سازوسامان کی چوری اور فلسطینی گھروں اور سہولیات پر قبضہ جیسے سنگین نوعیت کے جرائم پر اس گروپ کو کھلیچھوٹ حاصل ہوتی ہے۔

متعدد صحافی اورمقبوضہ ریاست میں فوج کے امور میں دلچسپی رکھنے والے افراد نے بٹالین کو ختم کرنےکا مطالبہ کیا۔اس میں متعدد غیر معمولی خصوصیات ہیں۔ لہذا یہ ربیوں کی نگرانی میںکام کرتی ہے۔

مختصر لنک:

کاپی