ویسے تو ہزاروں فلسطینی قابض اسرائیلی اتھارٹی کی جیلوں میں قید ہیں مگر چالیس ایسے فلسطینی ہیں جنہیں اسرائیلی جیلوں میں قید ہوئے ایک چوتھائی صدی سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ ان میں سے اکثر کی صحت کے شدید مسائل ہیں لیکن ان کی عالمی سطح پر شنوائی ہورہی ہے نہ رہائی کی کوئی کوشش نظر آتی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں بے بس اور بین الاقوامی طاقتیں کامل بے حس دکھائی دیتی ہیں۔ طویل قید کاٹنے کے بعد بھی جیلوں والے ان 40 فلسطینیوں کے بارے میں اتوار کے روز فلسطینی سنٹر فار پرزنر سٹڈیز( پی سی پی ایس ) نے اپنی جاری کردہ ایک رپورٹ میں کیا ہے۔
پی سی پی ایس کے مطابق الخلیل شہر کے صورف ٹاون کے رہنے والے 48 سالہ جمال الحر کا اسرائیلی جیل میں 26 واں سال شروع ہو چکا ہے۔ وہ اپن عمر کے نصف سے بھی زیادہ گذار چکےہیں۔ جبکہ ان کی ساری جوانی جیل کی سلاخوں کے پیچھے کٹ گئی ہے۔
پی سی پی ایس نے فلسطینی اسیران کے بارے رپورٹ میں بتایا ہے کہ ان چالیس قیدیوں سے 25 کو 1993 کے معاہدہ اوسلوسے بھی پہلے قید کیا گیا تھا۔ جبکہ 11 فلسطینی اسیران 1948 کے مقبوضہ علاقوں کے رہائشی ہیں۔
پی سی پی ایس نے قیدیوں کا طویل عرصے سے قید فلسطینیوں کو بن الاقوامی برادری کے ضمیر پر ایک دھبہ قرار دیا ہے۔ اس کے باوجود انہیں رہا کرانے کے لیے کوئی کوشش نہیں کہ انہیں صحت کے کئی مسائل کا سامنا ہے۔
رپورٹ کے مطابق طویل قید کاٹنے والے دو فلسطینی حالیہ برسوں میں جیل میں علاج معالجے کی مناسب سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے باعث جاں بحق ہو چکے ہیں۔ لیکن اسرائیلی قابض اتھارٹی ان کی میتیں بھی رہا کرنے اور ورثا کے حوالے کرنے پر تیار نہیں۔