پنج شنبه 06/فوریه/2025

’اسرائیل کا بادشاہ ’نیتن یاہو‘ایک بار پھر آرہا ہے‘

پیر 7-نومبر-2022

ایک بار پھر”نیتن یاہو” کو قابض اسرائیلی ریاست کے بادشاہ کا تاج پہنایا گیا ہے۔چند روز قبل کنیسیٹ کے انتخابات میں اپنے دائیں بازو کے بلاک کی کامیابی کے بعداسرائیل کے بڑھتے ہوئے دائیں بازو کے سیاسی منظر نامے کے درمیان نیتن یاھو ایک بارپھر تخت نشین ہونے والے ہیں۔ نیتن یاھو کی آمد کے ساتھ ہی فلسطینیوں کے ساتھ کسیممکنہ امن معاہدے کی تمام امیدیں بھی دم توڑ گئی ہیں۔

نیتن یاہو اپنیمعزولی کے 18 ماہ سے بھی کم عرصے کے بعد وزارت عظمیٰ پر واپس آجائیں گے کیونکہ انکے کیمپ نے کنیسٹ میں 65 نشستیں حاصل کر لی ہیں۔ یہ تعداد اکثریتی حکومت بنانے کےلیے آسان سمجھی جاتی ہے۔ آگے اسرائیل کے سیاسی حالات کیسے ہوں گے ان کے بارے میںکچھ کہنا قبل از وقت ہے مگر یہ طے ہے کہ تین سال میں پانچ بار اسرائیلی کنیسٹ کےانتخابات کے بعد کسی ایک بلاک کوواضح برتری حاصل ہوئی ہے۔

کنیسٹ کے نئےانتخابات میں حیران کن نتائج  میں مذہبی صیہونیتپارٹی نے 14 نشستیں حاصل کیں اور اسرائیل تیسری بڑی پارٹی بن گئی ہے۔ اس کے انتہاپسند لیڈر ایتمار بن غفیر کے آنے والی حکومت میں شامل ہونے کے امکانات ہیں۔ بن غفیرامریکااور اسرائیل میں دہشت گرد قرار دی گئی ’کاخ‘ کے سینیر رکن ہیں۔

حکومت کی سربراہیکے لیے "نیتن یاہو” کی واپسی تمام آپشنز پر فلسطینیوں کے ساتھ کھلے عامتنازعے کے منظر کو ہوا دینے کا باعث بن سکتی ہے۔ اس سے مغربی کنارے، مقبوضہ یروشلماور غزہ کا محاصرے میں آبادکاری اور جارحیت کو تقویت ملے گی۔

فاتح کی واپسی

"اسرائیل” کے متوقع وزیر اعظم "نیتن یاہو” نےگذشتہ برسوں میں ان کی راہ میں حائل تمام انتخابی، سیاسی اور عدالتی رکاوٹوں کو پیچھےچھوڑ دیا اور ایک ایسے منظر کے درمیان اقتدار میں واپس آئے جس میں انتہا پسندیمضبوط ہو رہی ہے۔

لیکوڈ نے 32 نشستیںحاصل کیں، مذہبی صیہونیت کو اسموٹریچ اور بین گویر نے 14، شاس 12 اور یونائیٹڈتورہ یہودیت نے 9 نشستیں حاصل کیں۔ یہ سب جماعتیں نیتن یاھو کے کیمپ میں ہیں۔

دوسری طرف ان کیحزب اختلاف کی پارٹی "دیر اِز اے فیوچر” میں جس کی سربراہی "یائرلیپڈ”کررہے ہیں  23 نشستیں حاصل کیں۔ بینی گینٹزکیسربراہی میں "آفیشل کیمپ” پارٹی کو 12، لائبرمین کی سربراہی میں”اسرائیل بیتونا ” کو 12 نشستیں حاصل ہوئیں۔ 5 نشستیں متحدہ عرب لسٹ جسکی سربراہی "عباس” ہے نے 5 نشستیں حاصل کیں، ڈیموکریٹک فرنٹ اتحاد اورعرب لسٹ نے 4 نشستیں حاصل کیں اور لیبر پارٹی نے 4 نشستیں حاصل کیں۔

سیاسی تجزیہ کارطلال عوکل نے زور دے کر کہا کہ "نیتن یاہو” کو ایک مستحکم حکومت بنانےکے لیے انتہا پسند بلاکس سے باہر اتحاد کی ضرورت نہیں ہوگی اور وہ صہیونی منصوبےکے اہداف کے حصول کے لیے پرعزم ہیں۔

انہوں نے فلسطینیمیڈیا سینٹر سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا: "نیتن یاہو کا اتحاد اسرائیل اوراس کے معاشرے کی نوعیت اور حکمت عملیوں میں خطرناک حد تک اضافہ کر رہا ہے۔ بایاںبازو آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے، انتہائی دائیں جانب منظر کو چھوڑ کر پہلی بارمذہبی صیہونیت 14 نشستوں کی طاقت کے ساتھ بڑھی ہےجس میں شاس اور حریدیم جیسی جماعتیںشامل ہیں۔

یتن یاہو کو سبسے طاقتور "اسرائیل ہاک” کے طور پر درجہ بند کیا جاتا ہے اور ان کیحکومت سخت گیرسمجھی جاتی ہے۔ ان کی پہلی مدت (1996-1999) یا اس کی دوسری مدت(2009-2021ء) دونوں کے دوران انہیں "اسرائیل” میں سب سے طویل عرصے تکرہنے والے وزیر اعظم بنا دیا۔

تجزیہ کار عوکلکا خیال ہے کہ "نیتن یاہو” کی واپسی تنازع کوایک ایسے مرحلے کی دہلیز پرڈال دیتی ہے جو فلسطینیوں کے ساتھ نسل پرست، فاشسٹ صیہونیت کا سایہ دار ہو گا۔اسرائیل کے بین الاقوامی تعلقات کو منفی طور پر گہرا کرے گا اور اسرائیلی معاشرےکے تضادات میں اضافہ ہو گا۔

نیتن یاہو کےزوال کے بعد گذشتہ دو سالوں کے دوران لیپڈ اور بینیٹ حکومت نے القدس اور الاقصیٰکے مسائل، مغربی کنارے میں کشیدگی، بستیوں کی تقویت، غزہ میں محاصرہ اور جنگوں میںفلسطینی منظر نامے کے خلاف انتہا پسندی اور جارحیت کی مشقوں میں اضافہ ہوگا۔

فلسطین کا منظر

نیتن یاہو کی کاکپٹ میں واپسی کے اثرات فلسطینی منظر نامے میں تیزی سے ظاہر ہوں گے، جو فلسطینی کازکو کمزور کرنے کے لیے ایک انتہا پسند حکومت کی واپسی سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہےجو کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر آنے کے وقت عرب ایجنڈے سے غائب تھی۔

"نیتن یاہو” نے 1948ء کے فلسطینیوں میں عرب متعصبانہ پوزیشنوںکو تقسیم کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور انہیں اس طرح منتشر کیا جس کے منفی اثراتعام طور پر فلسطینی منظر نامے پر اپنے اثر و رسوخ کو کمزور کرنے کی مسلسل کوشش میںگزشتہ انتخابات تک پھیل گئے۔

تجزیہ کار عوکلنے "نیتن یاہو” کی واپسی کو فلسطینیوں کے ساتھ کسی بھی مفاہمتی معاہدے یاامن کوشش کی تباہی ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ نیتن یاھو کی واپسی کا مطلب یہ ہے کہامن معاہدے کو دفن کرکے 50 بار الفاتحہ پڑھ لی جائے۔

مسجد اقصیٰ کو یہودیانےکے خطرات اور بڑھ جائیں گے۔ مغربی کنارے پر اسرائیلی قبضہ اور تسلط مزید مضبوطہوگا اور فلسطینیوں کے حقوق دبانے کے لیے طاقت کے مزید حربے استعمال کیے جائیں گے۔

نیتن یاہو کیسابقہ پالیسی جو مستقبل میں دہرائے جانے کا امکان ہے نے ایک ایسے وقت میں اقتصادیامن کے خیال کو فروغ دینے کی کوشش  ایک ایسےوقت میں کی جب غزہ کا محاصرہ، فلسطینی اتھارٹی کا کمزور کرنا، القدس پر حملہ، ایکجامع منصوبہ بندی کے تحت مغربی کنارے اور القدس سمیت فلسطینیوں کے قتل عام کاسلسلہ زور پکڑا۔

تجزیہ کار حبیبکہتے ہیں کہ نیتن یاہو اپنی پالیسی پر عمل کرنے کے لیے واپس آ جائیں گے جو فلسطینیمنظر نامے کے اسرار میں اپنے پیشرو "بینیٹ اینڈ لیپڈ” سے زیادہ تجربہکار ہیں، خاص طور پر مغربی کنارے اور غزہ کے معاملات میں وہ دوسرے سیاسی لیڈروں سےہٹ کر دیکھتے ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی