میٹھا پانی زندگیاور اور زندہ لوگوں کی رگوں میں دوڑتا خونہے۔کسی بھی مہذب ترقی اور صحت مند ماحولیاتی نظام کی بنیاد پانی ہے اور کسی بھیمعاشرے میں افراد کے لیے ضروری پانی کی مقدار میں کمی ایک حقیقی تباہی کا باعث بنتیہے۔ بعض اوقات پانی کی دستیابی یا کمی زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتی ہےاقواممتحدہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ صاف پانی کا حق ایک ناقابل تنسیخ انسانی حق ہے۔مگربدقسمتی سے فلسطینی قوم اپنے دیگر غصب شدہ حقوق کی طرح پانی کے بنیادی حق سےبھی یکسر محروم ہیں۔ البتہ فلسطینی سرزمین پرموجود پانی رنگ بہ رنگے یہودی نسل پرستوںکے لیے وافردستیاب ہے۔
صیہونی نظریہ میں پانی
صہیونی تزویراتیفکر میں پانی نے ایک اہم مقام حاصل کیا ہے۔ فلسطین میں پانی کے ذخائر کویہودی مذہبیرنگ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تورات میں پانی ان کا حق ہے۔ یہی نظریہ صہیونیوں کیسوچ اور فکر کی بنیاد ہے۔ زندگی میں مطلوبہ صہیونی ریاست کے تسلسل کے لیے پانی کیاہمیت کو اجاگر کیا جاتا ہے اور صہیونی لیڈروں نے کبھی بھی عرب پانیوں کے ممکنہ سبسے بڑے حجم کو کنٹرول کرنے کے لیے منصوبہ بندی اور پالیسیاں بنانا بند نہیں کیا،چاہے وہ فلسطین میں ہو یا عرب ممالک ہوں۔
فلسطینی نیشنلانفارمیشن سینٹر کی طرف سے شائع کردہ ایک تحقیق جس کا عنوان”عرب اسرائیل تنازعہ میں پانی”رکھا گیا کے مطابق سنہ 1850ء میں صہیونیتحریک نے ماہرین اور سائنسی کمیٹیوں کو فلسطین میں آبی وسائل کا مطالعہ کرنے کے لیےبھیجا تھا۔
سنہ1897ء میں پہلیصہیونی کانگریس کے بلانے کے بعد تھیوڈور ہرزل نے کہا تھا کہ "اس کانفرنس میںہم نے یہودی ریاست کی بنیاد اس کی شمالی سرحدوں کے ساتھ رکھی جو دریائے لیطانی تکپھیلی ہوئی ہے۔”
سنہ 1919 میںءعالمی صہیونی کانگریس کی طرف سے لیا گیا ایک اہم ترین فیصلہ یہ تھا کہ "لیگآف نیشنز کو یاد دلایا جانا چاہیے کہ آبپاشی اور بجلی کے لیے ضروری پانی کو سرحدوںکے اندر شامل کیا جانا چاہیے، بشمول دریائے لیطانی اور جبل الشیخ کی برف کو شاملکیا جائے۔
1920 میں چیم ویزمیننے برطانوی وزیر اعظم لائیڈ جارج کو ایک خط بھیجا جس میں اس نے کہا: ” دریائےاردن اور یرموک کے پانی یہودی ریاست کی ضروریات کو پورا نہیں کرتے اور دریائے لیطانیاس کمی کو پورا کر سکتا ہے اور الجلیل میں پانی آب پاشی کے لیے کافی ہوسکتا ہے۔
سنہ 1941ء میں بینگوریون نے کہا کہ "ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہودی ریاست کی عملداری کے لیےاردن اور لیطانی دریاؤں کے پانیوں کو ہماری سرحدوں میں شامل کرنا چاہیے۔
یہ قابض ریاست1947 میں تقسیم کے منصوبے کے دوران بالائی الجلیل کے علاقے اور اس کے آبی ذرائع پرقبضہ کرلیا تھا۔
فلسطینی آبی حدود پر حملے
سنہ 1948ء میں قابضریاست کے ادارے کے قیام کے بعد سے قابضحکام نے فلسطین میں پانی کے وسائل کی ممکنہ بڑی مقدار کو کنٹرول کرنے کی کوشش کیہے اور خصوصی محکموں نے فوری طور پر پانی کے منصوبوں پر عمل درآمد شروع کر دیا۔”اسرائیلی منصوبے اور پانی کی سرمایہ کاری کے منصوبے۔ 1948 کے بعد کےوسائل” کے عنوان سے ایک رپورٹ مرکزاطلاعات فلسطین نے شائع کی تھی۔ اس میںبتایا گیا تھا کہ سنہ 1950-1957ء کے دوران جھیل ہولا کی نکاسی کی گئی تھی۔
اس کےعلاوہ "سمتھ” پلان یا 1953-1960 کے سات سالہ منصوبے کا نفاذ جس کا مقصد1953ء میں 810 ملین کیوبک میٹر سے پیدا ہونے والے پانی کی مقدار کو 1960 میں 1730ملین کیوبک میٹر تک بڑھانا تھا۔
سنہ 1964ء میںقابض حکام نے دریائے اردن کے پانیوں کو صحرائے نقب میں منتقل کرنے کے لیے "نیشنلواٹر کیریئر” کے نام سے ایک منصوبہ نافذ کیا۔ النقب تاریخی فلسطین کے رقبے کا 50 فیصد سے زیادہ حصہبناتا ہے، اس کے بہانے صحرا کو سبزہ زار بنانا تھا۔
سنہ1967ء میںتمام فلسطینی اراضی پر قبضے کے ساتھ قابض حکام نے فلسطینی آبی وسائل پر مکملکنٹرول نافذ کر دیا اور متعدد فوجی احکامات جاری کیے جن میں انہوں نے فلسطینیوں کواپنے آبی وسائل کو استعمال کرنے کی آزادی سے محروم کر دیا، اور انہیں پانی کے نیٹورک کو برقرار رکھنے سے روک دیا۔ اس پلانمیں فلسطینیوں کی پانی کی ضروریات کو سراسر نظر انداز کردیا گیا۔
قابض حکام نےفلسطینیوں کو ان کے آبی ذرائع تک رسائی سے محروم کرنے کے لیے فلسطینی اراضی پر بستیاںبھی قائم کر رکھی ہیں، جو تازہ زیر زمین پانی کی کثرت سے خصوصیت رکھتی ہیں۔
اوسلو معاہدے میں پانی کا حق
عبوری مرحلے کےمعاہدے میں فلسطینیوں کے پانی کے حقوق کو قابض ریاست کی طرف سے تسلیم کرنے کاحوالہ دیا گیا تھا اور معاہدے کے متن میں کہا گیا تھا کہ "اسرائیل مغربیکنارے میں فلسطینیوں کے پانی کے حقوق کو تسلیم کرتا ہے اور ان حقوق کو حتمی حیثیتمیں کسی تصفیے تک پہنچنے کے لیے بات چیت کی جائے گی۔
غزہ- اریحامعاہدے کے اکتیسویں پیراگراف کا دوسرا آرٹیکل پانی کے مسئلے کے بارے میں ہے۔ پانیکے حقوق کے مسئلے کو حل کیے بغیر معاہدے کے پانی پر مخصوص اختیارات فلسطینی اتھارٹیکو منتقل کر دیے گئے تھے۔
دوسرے اوسلومعاہدے میں آرٹیکل 40 (پانی اور نکاسی کا معاہدہ) میں وہ بنیاد شامل تھی جس کی اساسپرپانی کے شعبے اور منصوبوں کے عبوری مرحلے کے دوران تیار کیے جائیں گے۔
محقق انس ابراہیمنے فلسطینی سینٹر فار اسرائیل اسٹڈیز "مدار” کی طرف سے شائع ہونے والی ایکتحقیق میں کہا ہے کہ معاہدے میں کہا گیا تھا کہ زیر زمین پانی کا 80 فی صد فلسطین جب کہ 20 فی صد فلسطینیوں کو دیا گیا۔
اوسلو معاہدے کے اثرات
مرکزاطلاعات فلسطینکے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں فلسطینی ہائیڈرولوجسٹ ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر جنرلڈاکٹر عبدالرحمن التمیمی نے کہا کہ دوسرے اوسلو معاہدے (پانی اور نکاسی کے معاہدے)کی چالیسویں شق کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ پانی کے مسئلے پر حتمی حیثیت کے معاہدوںتک ملتوی کر دیا گیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اوسلو معاہدے میں مسئلہ صرف آبیوسائل کی ملکیت پر مذاکرات کو حتمی حیثیت کے مذاکرات تک ملتوی کرنے تک محدود نہیںہے۔
ذرائع اور خدماتکے درمیان علیحدگی کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینی نیشنل اتھارٹی شہریوں کو پانی کے نیٹورک اور ذخائر جیسی خدمات فراہم کر سکتی ہے، لیکن ذرائع سے نکالے جانے والے پانی کیمقدار قابض ریاست کے ذریعے کنٹرول کی جاتی ہے۔
دریائے اردن کے پانیوں پرفلسطینیوں کے حق کی طرف توجہ نہ دینا، نہ اشارہ کرنا اور نہ ہی اعلان کرنا، اس حقیقتکے باوجود کہ فلسطینی عوام کا حق دریائے اردن کے پانی کے مختلف حصوں پر ہے۔
فلسطین کا پانیپانی کے وسائل کو سنبھالنے کے لیے اسرائیلی آبی کمپنی "میکوروٹ” کےکنٹرول میں ہے یعنی "میکورٹ” کمپنی اور سول انتظامیہ کے اختیارات جوفلسطینی اتھارٹی کو منتقل ہونے چاہیے تھے، منتقل نہیں کیے گئے۔ اس طرح پانی کاتمام کنٹرول اسرائیل کے پاس ہے۔