شام کے صدر بشار الاسد نے بدھ کے روز حماس کے ایک وفد سے ملاقات کی ہے۔ فلسطینی مزاحمتی تنظیم نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ یہ ملاقات ایک دہائی تک دمشق سے دور رہنے کے بعد’’صفحہ پلٹنے‘‘ میں مددگار ہو سکتی ہے۔
حماس کے رہ نماؤں نے 2011 کے اوائل میں بشارالاسد کی حکومت کے خلاف سڑکوں پرآغاز ہونے والی عوامی احتجاجی تحریک کی کھلے عام حمایت کی تھی اور 2012 میں دمشق میں اپنا صدردفتر خالی کردیا تھا۔ اس اقدام نے ان کے مشترکہ اتحادی ایران کو ناراض کر دیا تھا۔
اب بشارالاسد کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ معمول پر لانے سے حماس کی اسرائیل کے خلاف ’’مزاحمت کے محور‘‘میں شمولیت کی بحالی میں مدد مل سکتی ہے۔ اس میں ایران اور لبنان کی حزب اللہ شامل ہیں۔ وہ بشارالاسد کے فطری اتحادی ہیں کیونکہ وہ خود اہل تشیع کی علوی شاخ سے رکھتے ہیں۔
حماس کے سیاسی بیورو کے سینئر رکن خلیل الحیہ کے مطابق ایک چھوٹے وفد نے دمشق میں بشارالاسد سے ملاقات کی ہے تاکہ ’’ماضی کے تمام صفحات کو پلٹا جا سکے‘‘۔
خلیل الحیہ ہی حماس کے اس وفد کی قیادت کر رہے تھے۔ انھوں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’’ہم اس تاریخی ملاقات کو شام اور فلسطین کے مشترکہ عمل کا ایک نیا آغاز سمجھتے ہیں۔ہم نے صدر کے ساتھ ماضی سے آگے بڑھنے پراتفاق کیا ہے‘‘۔
انھوں نے کہا کہ متعدد عوامل نے اب مفاہمت اور سلسلۂ جنبانی دوبارہ شروع کرنے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ ان میں اسرائیل کے دوسرے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کا قیام بھی ایک اہم پہلو ہے۔ اس صورت حال میں فلسطینی نصب العین کوعرب حمایت کی اشد ضرورت ہے۔